کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 213
یہاں پر مراد مرنے کے بعد اس کے انجام کی دوٹوک گواہی دینا کہ فلاں انسان کے ساتھ یہ برتاؤ ہوا ہوگا۔ اس لیے کہ زندہ کے لیے گواہی دینا مردہ کے لیے گواہی دینے سے مختلف ہے۔ زندہ کے لیے گواہی اس کے ظاہری اعمال پر دی جاتی ہے۔ لیکن جو کچھ اس کے دل میں ہے اس پر گواہی نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے کہ دل کے راز اللہ سبحانہ و تعالیٰ علاّ م الغیوب کے بغیر کوئی نہیں جانتا۔یعنی اگر ظاہری طور پر مسلمان میں کوئی خیر یا شر کی بات ہے، تو اس کی گواہی دی جائے گی۔ یہ گواہی ظاہر پر ہوگی قلبی امور پر نہیں۔ رہا مرنے کے بعد اس کا انجام، تو اس کے بارے میں دو ٹوک طور پر تو کچھ نہیں کہیں گے۔ البتہ جس طرح دنیا میں ظاہری اعمال کی گواہی دی جاتی ہے، لیکن دل کی نہیں۔ ایسے ہی مرنے کے بعدانجام کے بارہ میں حتمی طور پر تو کچھ نہیں کہیں گے، لیکن عمومی طور پر خیر کی گواہی دیں گے۔ خوف اورامید مصنف رحمہ اللہ کا فرمان،(…اسکے گناہوں سے ڈرتے ہو)، اس سے مرد یہ کہ انسان کو اپنے اعمال پر نازاں و فرحاں نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ ان کی توفیق پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ان کی قبولیت کی امید کے ساتھ ساتھ رد ہوجانے کا خوف بھی رہنا چاہیے۔ یہ ہر عامل کے اپنے نفس کے لیے خاص اور دوسرے مسلمانوں کے لیے عام ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ﴿أُولَٰئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ یَبْتَغُونَ إِلَی رَبِّہِمُ الْوَسِیْلَۃَ أَیُّہُمْ أَقْرَبُ وَ یَرْجُونَ رَحْمَتَہٗ وَیَخَافُونَ عَذَابَہٗ إِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحْذُوراً﴾(الاسراء، 57) ’’ یہ لوگ جن کو(اللہ کے سوا) پکارتے ہیں ہو خود اپنے رب کے ہاں ذریعہ(تقرب) تلاش کرتے رہتے ہیں کہ کون اُن میں(اللہ کا) زیادہ مقرب(ہوتا) ہے اور اُس کی رحمت کے اُمید وار رہتے ہیں اور اُس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں بیشک تمہارے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہے۔‘‘ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ مؤمنین کو حکم دیتے ہوئے فرماتے ہیں، ﴿وَلَا تُفْسِدُوْا فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِہَا وَادْعُوہُ خَوْفاً وَّطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾(الاعراف، 56) ’’ اورزمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور اللہ سے خوف کرتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہنابیشک نہیں کہ اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿ إِنَّہُمْ کَانُوا یُسَارِعُونَ فِیْ الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُونَنَا رَغَباً وَرَہَباً وَکَانُوا لَنَا خَاشِعِیْنَ ﴾ (الانبیاء، 90) ’’اور ہمیں اُمید اور خوف سے پکارتے اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے۔‘‘