کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 212
نیچے والا حصہ فاسد ہوگا تو اوپر والا حصہ فاسد ہوجائے گا۔‘‘ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فوالذي لا إلہ غیرہ، إن أحدکم لیعمل بعمل أہل الجنۃ حتی ما یکون بینہ و بینہا إلا ذراع، ثم یسبق علیہ الکتاب، فیختم لہ بعمل أہل النار، فیدخلہا، وإن أحدکم لیعمل بعمل أہل النار، حتی ما یکون بینہ و بینہاإلا ذراع، ثم یسبق علیہ الکتاب، فیختم لہ بعمل أہل النار، فیدخلہا))[1] ’’اس ذات کی قسم جس کے بغیر کوئی معبود برحق نہیں ! بیشک تم میں سے کوئی ایک اہل جنت کے کام کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اور جنت کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر اس پر لکھی ہوئی کتاب-تقدیر-سبقت لے جاتی ہے، اور اس کا خاتمہ اہل ِ جہنم کے کاموں پر ہوتا ہے، اور اس کا داخلہ جہنم میں ہوجاتا ہے۔ بیشک تم میں سے کوئی ایک اہل جہنم کے کام کرتا ہے، یہاں تک کہ اس کے اورجہنم کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہ جاتا ہے، پھر اس پر لکھی ہوئی کتاب-تقدیر-سبقت لے جاتی ہے، اور اس کا خاتمہ اہل ِ جنت کے کاموں پر ہوتا ہے، اور اس کا داخلہ جنت میں ہوجاتا ہے۔‘‘ حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ((إن العبد لیعمل فیما یری الناس عمل أہل الجنۃ، وإنہ لمن أہل النار، ویعمل فیما یری الناس عمل أہل النار، وہو من أہل الجنۃ، وإنما الأعمال بخواتیمہا))[2] ’’ بیشک انسان ایسا عمل کرتا ہے جو لوگوں کے دیکھنے میں اہل جنت کا [عمل] ہوتاہے، مگر وہ یقیناً جہنمی[عمل] ہوتا ہے، اور کوئی انسان عمل کرتا ہے جو لوگوں کے دیکھنے میں اہل ِ جہنم کا [عمل] ہوتاہے، مگر وہ عمل اہل جنت کا ہوتا ہے، بیشک اعمال کا انجام اپنے خاتمہ کے لحاظ سے ہوتا ہے۔‘‘ ان احادیث کی بنا پر کسی انسان کے ظاہری اعمال کو دیکھ کر اس کی آخرت کے متعلق حتمی طور پر دو ٹوک فیصلہ میں کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔ظاہری طور پر بد اعمال والے کے لیے مغفرت کی دعا کرسکتے ہیں۔ نیک اعمال والے کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ، ہم نے اسے ایسا دیکھا اور پایا ہے، اس کے بارے میں اچھی امید رکھ سکتے ہیں، باقی اللہ ہی خفیہ باتوں کا جاننے والا ہے۔ یہ اسلام کے معروف قواعد میں سے ایک قاعدہ ہے کہ جوکوئی اہل قبلہ میں سے ہو، اس کے لیے ہم دو ٹوک الفاظ میں نہیں کہہ سکتے کہ فلاں انسان ایسا ہے۔ یہاں پر گواہی دینے سے مراد ظاہری امور کی گواہی نہیں، وہ تو مطلوب ہے۔
[1] رواہ البخاری [6594] مسلم [2643]۔ الشریعۃ ص 179ح،197 ۔رواہ الترمذي، باب، أنما الأعمال بالخواتیم، ح، 2137۔ امام ترمذی اور علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے ۔ [2] باب الأعمال بالخواتیم وما یخاف منہا، ح، 6493۔