کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 211
گی اور نہ ہی مانی جائے گی۔‘‘
یہاں پر ایک مسئلہ تفصیل طلب ہے۔ کبھی حاکم کسی بات کا حکم دیتا ہے، جس انسا ن کو حکم مل رہا ہے اس کی نظر میں جس چیز کا حکم دیا گیا ہے، وہ گناہ کا کام ہے، مگر دوسرے علماء کے ہاں اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ اسے جائز سمجھتے ہیں اور مسئلہ کے اندر اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس صورت میں چاہیے کہ علمائے کرام کی طرف رجوع کیا جائے اور فی الفور حاکم کی مخالفت نہ کی جائے۔ اس لیے کہ اس میں فساد پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
أصول شہادت
38۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(([ومن ] کان من أہل الإسلام،(ولا یشہد علی أحد) [فلا تشہد لہ بعمل بخیر ولا شر] فإنک لا تدري بما یختم لہ [عند الموت]، ترجو لہ [رحمۃ اللّٰه ]، وتخاف علیہ[ ذنوبہ]، ولا تدري ما یسبق لہ عند الموت إلی اللّٰه من الندم، وما أحدث اللّٰه في ذلک الوقت إذا مات علی الإسلام، ترجوا لہ رحمۃ اللّٰه، و تخاف علیہ ذنوبہ۔))
’’اور جوکوئی اہل اسلام میں سے ہو(کسی ایک کے متعلق گواہی نہیں دی جائے گی)، تو اس پر کسی اچھے یا برے عمل کی گواہی نہ دو۔ کیونکہ آپ کو علم نہیں کہ موت کے وقت اس کا خاتمہ کس پر ہوا ہو۔(خواہ) تم اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید رکھتے ہویا اس کے بارے میں(گناہوں کی وجہ سے) کوئی اندیشہ رکھتے ہو۔ آپ نہیں جانتے کے مرتے وقت ندامت میں سے کو ن سی چیز سبقت لے جائے گی اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے کیا معاملہ کیا، جب کہ اس کا انتقال اسلام پر ہوا۔ تم اس کے لیے رحمت ِالٰہی کی امید کرتے ہو یا اسکے گناہوں سے ڈرتے ہو۔‘‘
شرح، … یہاں پر مسئلہ کسی انسان کے جنتی یا جہنمی ہونے کے بارے میں گواہی دینے کا ہے۔کسی متعین شخص کے لیے جنتی یا جہنمی ہونے کی گواہی حتمی طور پر نہیں دی جاسکتی، سوائے ان لوگوں کے جن کے لیے شرعی دلیل موجود ہو۔انسان کا انجام اس کے آخری اعمال کے لحاظ سے ہوتا ہے جس پر اس کا خاتمہ ہواہو۔ حضرت معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں نے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے،
((إنما الأعمال کالوعاء إذا طاب أسفلہ طاب أعلاہ، وإذا فسد أسفلہ فسد أعلاہ))[1]
’’بیشک اعمال ایک برتن کی مانند ہیں، جب ان کا نیچے والا حصہ اچھا ہوگا تو اوپر والا حصہ اچھا ہوگا، اور جب
[1] سنن ابن ماجہ، باب، التوقی علی العمل، ح، 4199۔قال الألبانی، صحیح ۔