کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 207
رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم لأبي ذر رضی اللّٰه عنہ [ الغفاري]،((اِصْبِرُوا وَإِنْ کَانَ عَبْداً حَبْشِیّاً))1۔وقولہ، للأنصار،((اِصْبِرُوا حَتّٰی تَلْقَوْنِیْ عَلَی الْحَوْضِ))۔’’ و لیس من السنۃ قتال السلطان، فإن فیہ فساد الدین والدنیا۔)) [1] ’’حکمران سے لڑنا اور اس کے خلاف بغاوت کرنا حلال نہیں ہے، خواہ وہ ظلم ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے لیے تھا کہ، ’’ صبر کرو، خواہ کوئی حبشی لونڈا ہی کیوں نہ ہو اور انصار[ رضی اللہ عنہم ] سے فرمایا تھا، ’’ صبر کرو، یہاں تک کہ تم حوض پر مجھ سے آ ملو اور یہ سنت میں سے نہیں ہے کہ حکمران سے جنگ کی جائے۔ کیونکہ اس میں دین اور دنیا کا فساد ہے۔ ‘‘ شرح، … یہ بھی ایک عظیم الشان قاعدہ ہے۔ یعنی سنت میں حاکم سے قتال جائز نہیں ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور صحابہ کرا م اور سلف ِ صالحین کا منہج اسی بات پر دلالت کرتا ہے۔ بھلے حاکم ظلم ہی کیوں نہ کرے، اور وہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، ((أَعْطُوْہُمْ حَقَّہُمْ وَ اسْأَلُ اللّٰہَ حَقَّکُمْ))[2] ’’انہیں ان کا حق ادا کرو، اور اللہ تعالیٰ سے اپنا حق مانگو۔‘‘ حکمران سے یہاں پر مراد مسلمان حکمران ہے۔ اس لیے کے سلف کے دور میں اس بات کا تصور بھی نہیں تھا کہ ان پر کافر حکمرانی کرے۔لیکن اگر ایسا ہوجائے کہ مسلمانوں پر کافر حکمران مسلط ہوجائے تو اس صورت میں بھی ہر کس و ناکس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اسلحہ اٹھاکر حاکم کے خلاف اٹھ کھڑا ہو، اور اسے جہاد کا نام دے کر لڑائی شروع کردے۔ بلکہ معاملہ اہل ِ حل و عقد کے پاس جائے گا، وہ اس معاملہ میں شرعی قواعد کے مطابق غور وفکر کریں گے۔یہ سب فتنہ کے خاتمہ اور فساد سے بچنے کے لیے ہے، مگر اس کافر حاکم کا مسلمان پر کوئی حق ِ ولایت نہیں ہوگا۔سوائے اس کے کہ جو مصلحتیں مسلمانوں اور کافروں کے درمیان مشترک ہیں، ان کا خیال رکھا جائے گا، اور نظام کا اس وقت تک احترام کیا جائے گا جب تک وہ ضروریات دین یا امور شریعت سے متصادم نہ ہو۔ گذشتہ احادیث میں حکمرانوں کے ظلم و ستم پر صبر کرنے کی جتنی بھی تلقین ہے، اس کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ خواہش نفس، کج فہمی یا جہالت کی وجہ سے فتنہ پھیلانے سے بہتر ہے کہ انسان مظلومیت کی حالت میں اپنی جان دیدے، مگر شرو فساد پھیلا کر فتنہ کا بازار گرم نہ کرے، اور نہ ہی لوگوں کے خون ِ ناحق کی ذمہ دار ی اپنے کندھوں پر لے۔
[1] أخرجہ البخاری کتاب مناقب الأنصار، باب قول النبی للأنصار، ’’ اصبروا حتی تلقونی علی الحوض ۔‘‘مع الفتح 7/117۔ ومسلم في کتاب الإمارۃ باب الصبر عند ظلم الولاۃ 1845) وأحمد (3/ 57، 171) من حدیث أسید بن حضیر ۔‘‘ [2] البخاری باب، ما ذکر عن بنی اسرائیل ۔