کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 201
جائیں گی۔ ہر دو رکعت کے درمیان فاصلہ دیا جائے گا، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ایسے ہی فرمایا ہے۔ شرح، … یہی اہل سنت و الجماعت کا مسلک اور طریق کار ہے کہ وہ حج اور جہاد کو امام کی اطاعت و ہمراہی میں حلال جانتے ہیں اور اس کی مخالفت کو جائز نہیں سمجھتے۔ خواہ یہ امام نیک ہو یا فاجراور ایسے ہی نماز بھی حاکم کے پیچھے، یا جسے وہ متعین کردے، اس کے پیچھے واجب جانتے ہیں اور کسی انسان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ حج میں امام سے علیحدگی اختیار کرلے، یا جہاد میں یا نماز جمعہ میں [اس کا ساتھ چھوڑ دے، اس لیے کہ ان امور میں اجتماعیت اختیار کرنے میں مسلمانوں کی شان و شوکت اور اجتماعیت کا اظہار ہے]۔ اس لیے کہ یہ امور دینی شعائر میں سے ہیں۔ شیخ نے یہاں پر دو مثالیں بیان کی ہیں۔پہلی مثال حج کی ہے، جو دینی امور سے تعلق رکھتی ہے۔ خواہ حج ہو یا اس جیسا کوئی اور کام(جیسے جمعہ)، لوگوں پر واجب ہوتا ہے کہ ایک امام پر جمع ہوں اور دوسری مثال جہاد کی ہے۔ جو امت کی مصلحت اور اسلامی حدود کی حفاظت کے لیے بہت ہی ضروری ہے۔ یہ بھی ان بڑے اہم ترین مسائل میں سے ہے جن کے بارے میں امت پر واجب ہوتا ہے کہ وہ عظیم تر شرعی اور وقتی مصلحتوں کے پیش نظر اپنے ائمہ(حکمرانوں) کے ساتھ متفق رہیں، اور ان سے علیحدہ ہو کر امت میں تفریق پیدانہ کریں۔ مصنف رحمہ اللہ کا فرمان،(اور نماز جمعہ ان کے پیچھے جائز ہے)، مراد یہ ہے اگرچہ ان کے ہاں فسق اور گناہ بھی پایا جائے، تو ان کے پیچھے نماز پڑھ لینی چاہیے۔ اسی لیے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ، ’’ فلاں انسان لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے، اور آپ محصور ہیں، حالانکہ وہ امام نہیں ہے،(اور نہ ہی وہ امام بننے کے قابل ہے)، وہ تو فتنہ و فساد کا امام ہے،(تو ہم نمازوں کا کیاکریں ؟)۔ آپ نے فرمایا، ’’ اے میرے بھتیجے ! جب لوگ کوئی اچھائی کریں تو ان کے ساتھ اچھائی کرو،اور جب کوئی برائی کریں تو ان کی برائی سے بچ کررہو۔‘‘ نماز جمعہ کو یہاں ذکر کرنے کا سبب یہ ہے کہ تیسری صدی ہجری کے آخرتک حکمران اور ان کے مقرر کردہ علاقائی گورنر یا امراء ہی نماز جمعہ پڑھایا کرتے تھے۔ یا پھر اس کے لیے ان کی طرف سے کسی شخص کو متعین کیا جاتا تھا۔ چونکہ نماز جمعہ میں اسلامی جمعیت اور اتحاد و اتفاق کا مظہر عام نماز کی جماعت سے زیادہ ہے اس لیے شرعی حکم یہ ہے کہ ان ائمہ کے پیچھے ہی نماز پڑھ لی جائے، اور تفرقہ نہ ڈالا جائے۔ اس کے بعد مصنف نے جمعہ کے وقت پڑھی جانے والی رکعات کو ذکر کیا ہے۔ اگرچہ ان رکعات کا ان مصالح عظمی جہاد اور حج اوراقامت جمعہ سے کوئی ایسا تعلق نہیں، مگر یہاں پر ذکر کرنے کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ شاید مصنف رحمہ اللہ کے دور میں کچھ لوگ ایسے ہوں جو اس سنت کی مخالفت کررہے ہوں۔ یا پھر جمعہ کا جب ذکر کیا گیا تو اسی مناسبت سے جمعہ کی رکعات کا بھی ذکر کردیا۔ نماز جمعہ کے بعد نوافل کی کئی صورتیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم