کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 199
’’ تم پر ایسے حکمران آئیں گے تم ان میں کچھ اچھائیاں بھی دیکھوگے اور برائیاں بھی، جس نے حق کو پہچان لیا، وہ بری ہوگیا، اور جس نے ان برائیوں کا انکار کیا(یاانہیں برا سمجھا/نا پسند کیا) وہ محفوظ رہا۔مگر جو انسان راضی رہا اور پیروی کرتا رہا۔-وہ ہلاک ہوگیا،-صحابہ نے کہا-: کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں جب تک وہ نماز پڑھتے رہیں۔‘‘ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی: ((علی السمع والطاعۃ، في الیسر و العسر، والمنشط و المکرہ، وأن لا ننازع الأمر أھلہ، وأن نقوم أو نقول بالحق، حیثما کنا، لا نخاف في اللّٰه لومۃ لائم))[1] ’’ سمع اور اطاعت پر، تنگی اور آسانی میں، اور پسند اور نا پسند میں اور یہ کہ ہم اہل امر(یعنی حکمرانوں) سے جھگڑا نہیں کریں گے اور یہ کہ ہم حق کے ساتھ ہی کھڑے ہوں، او رحق ہی کہیں گے، خواہ ہم جہاں کہیں بھی ہیں اور ہم اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔‘‘ 31۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((و لایحل لأحد أن یّبیت لیلۃ لا یری أن علیہ إماماً، براً کان أو فاجراً۔)) ’’اور کسی کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ ایک رات اس حالت میں گزارے کہ اس کا کوئی حاکم نہ ہو۔ خواہ وہ نیک ہو یا فاجر۔‘‘ شرح:… یعنی جب تک حکومت قائم ہو۔ خواہ وہ شرعی شروط کے مطابق ہو، یا ان سے خالی ہو، مگر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنی گردن میں بیعت کے طوق کو لازم سمجھے۔ جب تک حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہو۔ حکومت قائم ہونے کی پہلی صورت یہ ہے کہ حکومت شرعی شروط کے مطابق قائم ہوئی ہو۔ دوسری صورت: یا طاقت کے بل بوتے پر غالب آجانے کی ہے۔جیسا کہ دنیا کے کئی ممالک میں اس وقت حکومتیں قائم ہیں۔خواہ وہاں کے حکمران حاکم ہونے کی ان شرعی شروط پر پورا اترتے ہویا نہیں، اس سے قطع نظر ان کی اطاعت کی جائے گی۔ تیسری صورت انتخابات کی ہے۔ اس کی دو حالتیں ہیں۔ پہلی حالت: تو یہ ہے کہ اہل حل و عقد کی ایک جماعت کے مشورہ اور رائے سے کام لیا جائے۔ جیسا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کیا تھا۔ کہ آپ تین دن تک لوگوں کی رائے لیتے رہے اور اس کے بعد جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کا اعلان کیا تو فرمایا کہ: میں نے دیکھا کہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے۔ اس طرح کے انتخابات جن میں اہل خیر و صلاح اپنے میں سے کسی بہتر انسان کا انتخاب امت
[1] رواہ البخاری 7142۔ مصنف 65۔ مختصر الشریعہ 35۔