کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 194
یعنی جس نے بھی ایمان کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی وہ صحابی [ رضی اللہ عنہم ]ہے۔ خواہ وہ ایک دن یا کچھ لمحات ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیوں نہ رہا ہو، اور اس کی عزت و اکرام اور اس سے محبت رکھنا واجب ہوجاتا ہے۔ اس کی تفصیل پیرایہ نمبر 147 میں بھی آئے گی۔ مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((ترحم علیہ، وتذکر فضلہ، وتکف عن زلتہ، ولا تذکر أحداً منہم إلا بخیر۔ لقول رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم:((إِذَا ذُکِرَ أَصْحَابِي فَأَمْسِکُوْا)) [1] ’’ان کے لیے رحمت کی دعا کرتے رہیں، اور ان کے فضائل کا ذکر کرتے رہیں، اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی کرتے رہیں۔اور ان میں سے ہر ایک کو خیر کے ساتھ ہی ذکر کرتے رہیں، اس لیے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے: ’’ جب میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے تو اپنی زبانوں کو روک لو۔‘‘ شرح: … یعنی ہم ان تمام صحابہ کر ام رضی اللہ عنہم اجمعین کے لیے رحم کی دعا کرتے ہیں اور ان کا ذکر خیر کرتے ہیں، ان سے محبت رکھتے ہیں، او ران کی اقتداء کرتے ہیں، اور اپنی زبانوں کو ان کے بارے میں بات کرنے سے روک کر رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمارا ایمان ہے صحابہ کرام سے جو کچھ ہوا، وہ ان کی اجتہادی غلطی تھی، جس پر انہیں اللہ کے ہاں اجر ملے گااور اس کے علاوہ بھی ان کے ایسے نیک اعمال ہیں جن کی وجہ سے ان کے غلط اعمال ختم ہوجائیں گے۔ہم ایمان رکھتے ہیں کہ وہ سب لوگ حق کی تلاش میں تھے، ان میں سے کوئی ایک بھی خون و فساد نہیں چاہتا تھااور ہمارے لیے مناسب نہیں کہ ہم آج ان کے مسائل اڑاتے پھریں۔بلکہ ہمیں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حکم یہی ملا ہے: ’’ جب میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے تو اپنی زبانوں کو روک لو۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا تسبوا أصحابی، فوالذي نفس محمد بیدہ لو أنفق أحدکم مثل أحدٍ ذَہَباً ما بلغ مد أحدہم و لا نصیفہ))[2] ’’ میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو برا بھلا نہ کہو: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر تم میں سے کوئی ایک احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے گا وہ ان کی ایک مٹھی یا آدھی مٹھی کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی شان بہت بلند کی ہے اور باقی امت کے مسلمانوں کے ان لوگوں سے محبت
[1] أخرجہ الطبرانی فی الکبیر (10/ 243- 244)، و أبو نعیم فی الحلیۃ (4/ 108)، من حدیث عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ۔ اس حدیث کے کئی صحابہ سے شواہد ہیں، امام البانی رحمہ اللہ نے ’’ السلسلۃ الصحیحۃ ‘‘(34) میں ان کا احاطہ کرتے ہوئے پوری طرح نقل کیا ہے۔ [2] ابو داؤد ح: 4660۔ صحیح ۔