کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 193
الجنۃ، وسعید بن زید في الجنۃ، وابو عبیدہ بن جراح في الجنۃ)) [1]
’’ أبو بکر-الصدیق رضی اللہ عنہ-جنت میں ہے،اورعمر-بن خطاب رضی اللہ عنہ-جنت میں ہے، اورعثمان-بن عفان رضی اللہ عنہ-جنت میں ہے۔اور علی بن-ابی طالب رضی اللہ عنہ-جنت میں ہے، ا ورطلحہ-رضی اللہ عنہ-جنت میں ہے۔ اورزبیر-جنت میں ہے، اورعبد الرحمن-بن عوف رضی اللہ عنہ-جنت میں ہے، اور سعد-بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ-جنت میں ہے، اورسعید بن زید رضی اللہ عنہ جنت میں ہے، اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ جنت میں ہے۔‘‘
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(یہ تمام خلافت کے اہل تھے…): اس سے اہل شوری ہیں جو مجلس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے بنائی تھی۔
پھر ان کے بعد اصحاب بدر کا درجہ ہے۔ ان کے بعد بیعت رضوان والوں کا مقام ہے، اور ان کے بعد وہ صحابہ ہیں جنہوں نے فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا، ہجرت کی اور جہاد کیا، اور پھر باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقام و مرتبہ ہے۔ ان کے مقام و مرتبہ کو ئی نہیں پہنچ سکتا بھلے وہ احد پہاڑ کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خیرات کردے۔
جوانسان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو برا بھلا کہتاہے وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا منکر ہے، اس لیے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں صحابہ کی تعریف بیان کی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿لِلْفُقَرَائِ الْمُہَاجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ o وَالَّذِیْنَ تَبَوَّئُوا الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا اُوْتُوا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَّمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo﴾(الحشر: 8، 9)
’’اور ان مہاجرین محتاجوں کا بھی(حق) ہے جو اپنے گھر بار مال دولت سے نکال دئیے وہ خدا کے فضل اور اس رضامندی کی تلاش میں ہیں اور اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتے ہیں یہی لوگ تو سچے(ایماندار)ہیں۔اور ان(انصار) کا بھی(حق) ہے جنھوں نے مہاجرین سے پہلے مدنیہ میں اپنا ٹھکانہ مقرر کیا اور ایمان لائے جو کوئی(مسلمانوں میں سے) ان کے پاس ہجرت کرکے آتا تواس سے محبت کرتے اور مہاجرین کو(لوٹ کے مال میں سے) جو دیا جائے اس سے ان کے دلوں میں حسد نہیں ہوتا اور(مہاجرین کوآرام پہنچانا) اپنے آرام پر مقدم رکھتے ہیں گو ان کو تنگی ہی کیوں نہ ہو اور جو شخص اپنے نفس کی بخیلی اور لالچ سے بچایا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد کو پہنچیں گے۔‘‘
مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی):
[1] رواہ أحمد 1/ 193۔ الترمذی 3747۔ مختصر الشریعۃ ص 267،و عبدالرزاق في المصنف 1176۔