کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 191
’’ اے پہاڑ ٹھہر جا ! تم پر نبی صدیق، اور شہید سوار ہیں۔‘‘[1]
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت
آپ مردوں میں پہلے انسان ہیں جو ایمان لائے، اور سب سے پہلے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی۔ او رآپ کے بہترین ساتھی رہے، جنہوں نے اپنا گھر بار اور مال اس راہ میں خرچ کیا اور غار میں آپ کے ساتھ رہے۔مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبر کے ساتھ ثابت قدم رہے، اور سفر ِ ہجرت میں رفیق بنے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿إِلَّا تَنصُرُوہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ إِذْ أَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ إِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ إِذْیَقُولُ لِصَاحِبِہِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہُ عَلَیْہِ وَأَیَّدَہُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْہَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا السُّفْلَی وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ﴾(التوبہ: 40)
’’ اگر تم پیغمبر کی مدد نہ کرو گے تو اللہ ان کا مدد گار ہے(وہ وقت تمہیں یاد ہو گا) جب ان کو کافروں نے گھروں سے نکال دیا(اس وقت) دو(ہی شخص تھے جن) میں(ایک ابوبکر تھے) دوسرے(خود رسول اللہ) جب وہ دونوں غار(ثور) میں تھے اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے تو اللہ نے ان پر تسکین نازل فرمائی اور ان کو ایسے لشکروں سے مدد دی جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کی بات کونیچا کر دیا اور بات تو اللہ ہی کی بلند ہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔‘‘
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوگئے ان کے لیے نماز کے لیے نکلنا ممکن نہ رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن مناف میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’ اگر مجھے تاخیر ہوگئی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑہانا۔‘‘
حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
’’ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی معاملہ میں بات کی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ دوبارہ آئے۔ تو اس عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر میں آپ کونہ پاؤں تو ؟ گویا کہ وہ موت مراد لے رہی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آنا۔‘‘
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ہستی ابو بکر رضی اللہ عنہ ہی ہیں جن کا انتخاب خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ہوا ہے۔
[1] دیکھیں: أحمد 1/ 188۔ ابو داؤد 4623۔ الترمذی 3757۔ مختصر الشریعہ ص 266عبد الرزاق في المصنف 1169۔