کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 189
5۔ حیاء داری: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر انصار کے شخص پر ہوا وہ اپنے بھائی کو حیاء کے بارے میں نصیحت کررہا تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((دعہ، فإن الحیاء من الإیمان)) [1]
’’ اسے چھوڑ دیجیے بیشک حیاء ایمان میں سے ہے۔‘‘
عبد الرزاق صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’ میں نے سنا کہ معمر(بن راشد)، سفیان ثوری، مالک بن أنس، ابن جریج، اور سفیان بن عینیہ سب یہی کہہ رہے تھے:
((الإیمان قول و عمل، یزید و ینقص)) [2]
’’ ایمان قول اور عمل ہے، کم ہوتا اور بڑھتا ہے۔‘‘
ایمان کا خاتمہ
حالت ارتداد یا خالص نفاق کی صورت میں ہوتا ہے کہ ایمان سارے کا سارا ختم ہوجاتا ہے اور اس میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچتااور ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَلَقَدْ أُوحِیَ إِلَیْکَ وَإِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ﴾(الزمر: 65)
’’تحقیق وحی کی گئی آپ کی طرف اور ان لوگوں کی طرف جو آپ سے پہلے تھے۔ اگر آپ بھی شرک کریں گے تو آپ کے تمام اعمال ضائع کردیے جائیں گے اور ضرور گھاٹا پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔‘‘
ایمان کا وقتی زوال
اور کبھی خاص احوال اور حالت ایسے ہوتے ہیں کہ ایمان اٹھ جاتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے:((لا یزنی الزانی و ہو مؤمن…))…’’زانی زنا نہیں کرتا اور وہ مؤمن ہو۔‘‘
بعض علماء نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’ اصل ِایمان [یعنی لا إلہ إلا اللہ کے اقرار ] کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔اور یہ بھی مراد ہے کہ کبھی کوئی ایسا گناہ انسان سے سر زد ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے انسان ملت ِ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، جیسے: شریعت کی کسی چیز کا مذاق اڑانا، یا یہ سمجھ بیٹھنا کہ شریعت کے بعض احکام ہمارے اس دور کے ساتھ مناسب نہیں ہیں۔ یا یہ کہنا کہ اسلامی تعلیمات پتھر کے دور کی تعلیمات ہیں وغیرہ یہ سب کفریہ باتیں ہیں، جن کے کرنے یا کہنے سے ایمان کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔اس کے بارے میں اچھی طرح سمجھنے کے لیے
[1] رواہ البخاری 24، مسلم 36۔ مختصر الشریعہ ص 78۔
[2] رواہ عبدالرزاق في المصنف 243۔ مختصر الشریعہ 80۔