کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 185
ردّ کی وجوہات اس حدیث میں رافضہ پر رد کی دو وجوہات ہیں: پہلی وجہ: یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے اور ان میں سے ایک بھی حضرت ِ حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے نہیں تھا، جن کی امامت کا دعوی رافضی کرتے ہیں۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اس حدیث میں بارہ عادل خلفاء کے وجود پر دلالت ہے۔ یہ شیعہ اثنا عشریہ کے امام نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ان کے آئمہ میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے لیے امارت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ جب کہ یہ-خلفاء-لوگ قریش میں سے تھے، جو ایک دوسرے کے بعد پے در پے حاکم بنے، اور لوگوں میں عدل کے ساتھ فیصلے کرتے رہے۔ ان کی بشارت سابقہ کتابوں میں بھی وارد ہوئی ہے۔ پھر ان کے لیے یہ بھی شرط نہیں ہے کہ یہ لوگ پے درپے آئیں، بلکہ ان کا وجود یکبارگی(یعنی پے درپے) بھی ہوسکتا ہے، اور آگے پیچھے بھی۔ ان میں سے چار عہد ِ ولایت سے آئے، یعنی حضرت ابو بکر و عمر وعثمان اور علی رضی اللہ عنہم اجمعین۔ پھر وقفہ ہوا، پھر اللہ جس کو چاہے گا، لے آئے گا اور اس وقت میں جس کے بارہے میں اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ان ہی میں سے ایک امام مہدی ہوں گے جن کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے موافق ہوگا، اور کنیت کنیت کے موافق۔‘‘ [1] بحث ایمان ایمان کا لغت میں معنی ہے: تصدیق کرنا، جس کے ساتھ اطمینان بھی ہو، اور کسی قسم کا کوئی شک باقی نہ رہے۔کہا جاتا ہے کہ:’’آمنہ ‘‘اس پر ایمان لایا یعنی:اس کی تصدیق کی۔ ایمان کا شرعی معنی یہ ہے:’’ بیشک ایمان دل سے پختہ تصدیق زبان سے اقرار اور اعضاء سے عمل کا نام ہے، کم ہوتا اور بڑھتا ہے۔ فرمانبرداری کے کام کرنے سے بڑھتا ہے، اور نافرمانی کے کام کرنے سے کم ہوتا ہے‘‘۔ ان امور کے مجموعہ کے بغیر ایمان کا ہونا ممکن نہیں۔ جو کوئی دل سے ایمان رکھتا ہو، مگر زبان سے اس کا اقرار نہ کرے تو یہ شخص مؤمن نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ ﴾(النمل:14) ’’اوران کے دلوں میں تو ان نشانیوں کا یقین آگیا وہ حق میں اللہ کی طرف سے ہیں) پر(زبان سے) ہیکڑی اور شیخی کے مارنے انکار کرتے رہے پھر(اے پیغمبر)دیکھ لے ان فسادیوں کا انجام کیسا(خراب ہوا)۔‘‘
[1] تفسیر ابن کثیر 3/ 301۔