کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 181
ہوئے لکھتے ہیں: ’’رہا شیعہ کا یہ گمان کہ اس کا نام محمد بن حسن ہے، اور وہی محمد بن حسن عسکری ہے، یہ ان کی ایک بہکی ہوئی بات ہے۔اس لیے کہ محمد بن حسن کا انتقال ہوگیا تھا، اور اس کے باپ حسن کی میراث اس کے چچا جعفر نے لی تھی۔‘‘[1] شیخ خالد محمدبن علی الحاج امام مہدی کے آخری زمانے میں آنے پر دلیل بعض صحیح احادیث ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں: ’’ یہ بات قابل بیان ہے کہ یہ احادیث شریفہ ہمارے لیے کھلے طور پر امام مہدی کی بعض صفات ظاہر کرتی ہیں۔جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خبر دی ہے۔یہ شیعوں کے مزعوم امام مہدی کے خلاف ہیں، ان صفات میں سے ہم یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ: اس مہدی کا نام اور اس کے باپ کا نام ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کے نام کے موافق ہوگا۔اوروہ اپنی بعض اخلاقی اور فعلی صورتوں میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہ ہوگا۔‘‘[2] شیعہ اور اہل سنت کے ہاں مہدی کے تصور میں فرق رہا امامیہ شیعہ کے ہاں مہدی کاتصور، توان کے ہاں مہدی سے مراد محمد بن حسن عسکری ہے۔یہاں سے یہ بات ہمارے لیے واضح ہوجاتی ہے کہ اس کے باپ کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کے نام سے نہیں ملتا۔ جیسا کہ سنت مطہرہ اس پر دلالت کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ثقہ تاریخ ہم سے یہی کہتی ہے کہ حسن عسکری نے اپنے پیچھے کو ئی بیٹا نہیں چھوڑا۔ مختصر طور پر شیعہ کے دعوی کی کوئی سند نہیں ہے اور نہ ہی اسے معتبر علماء میں سے کسی ایک نے نقل کیا ہے اورنہ ہی اس کا صحیح ہونا ثابت ہے۔ ہاں جب عقل نہ رہے تو پھر ہر چیز جائز ہے۔‘‘[3] شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ اپنی کتاب: ’’ عقیدۃ أھل السنۃ و الأثر في المہدی المنتظر ‘‘ کے اختتامی کلمہ میں، جس کا انہوں نے عنوان رکھا ہے: ’’ آخری کلمہ اس بیان میں کہ اہل سنت و الجماعت کے مہدی کے بارہ میں عقیدہ کا شیعہ کے عقیدۂ مہدی سے کوئی تعلق نہیں ہے، [مذکورہ عنوان میں] فرماتے ہیں: ’’بیشک مہدی کے بارے میں احادیث بہت زیادہ ہیں، جنہیں مؤلفین نے قلم بند کیا ہے۔اور علماء کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ یہ احادیث متواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں۔اور اہل ِ سنت و الجماعت اور دوسرے لوگوں اشاعرہ [ ماتریدیہ وغیرہ ] کا عقیدہ بھی ان ہی احادیث کے موجب ہے۔ جو کہ ایک ثابت حقیقت پربغیر کسی شک و شبہ کے دلالت کرتی ہیں، اور جن کا حاصل مقتضا آخر زمان میں ہوگا۔اور اہل سنت و الجماعت کے ہاں اس ثابت شدہ حقیقت کا شیعہ کے عقیدہ سے سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس لیے کہ
[1] الفتن و الملاحم 1/ 29۔ [2] لوامع الأنوار 2/ 71۔ [3] الکشاف الفرید عن معاول الہدم ونقائض التوحید 1/ 123-124۔