کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 178
ایک ساتھ چریں گے اور گائے اور چیتا، اور بکری اور بھیڑیا(ایک ساتھ چریں گے)اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے۔ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو تکلیف نہیں دے گا۔ آپ چالیس سال زمین میں رہیں گے اور پھر آپ فوت ہوجائیں گے، اور مسلمان آپ کا نماز جنازہ پڑھیں گے۔‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت ہی یاجوج و ماجوج کی نشانی ظاہر ہوگی۔ جو کچھ مدت ان کے درمیان رہیں گے پھر ان کا انتقال ہوگا، اور انہیں دفن کیا جائے گا۔ عیسی علیہ السلام کی موت کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیج کر مؤمنین کی روحیں قبض کر لیں گے، اور زمین پر سوائے شریر لوگوں کے کوئی باقی نہیں رہے گا۔ نزول عیسی علیہ السلام کے مسئلہ پر ایک مستقل کتاب بھی لکھی گئی ہے: ’’ التصریح في تواتر ِ نزول المسیح ‘‘ ازحضرت علامہ شاہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ۔ حضرت مہدی کی آمد مصنف رحمہ اللہ کا فرمان:(اور قائم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھیں گے): اس سے مقصود حضرت مہدی ہیں، جن کی آمدیقینی امر ہے۔ جو آل ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہونگے۔ جن کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ اس امت کی اصلاح کریں گے، اور ان کے ہاتھوں ہی آخری معرکہ لڑا جائے گا، پھران کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے۔قائم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد حضرت امام مہدی ہیں۔ جن کا خروج عقیدہ اہل ِ سنت و الجماعت کے متواتر عقائد میں سے ہے۔اس کے بارے میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میرے اہل ِبیت میں سے ایک آدمی عرب کا حاکم بن جائے گا، جس کا نام میرے نام جیسا ہوگا۔‘‘ [1] حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ دنیا میں سوائے ایک دن کچھ باقی نہ ر ہے تو اللہ تعالیٰ اس دن کو لمبا کردینگے، یہاں تک اس دن میں میرے اہل ِ بیت میں سے ایک آدمی کو بھیجیں گے، جس کا نام میرا نام ہوگا، اور جسکے باپ کا نام میرے باپ کا نام ہوگا۔‘‘ [2] حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ زمین ظلم و زیادتی سے بھرجائے گی۔پھر فرمایا: ’’پھر
[1] الترمذی، کتاب الفتن، باب: ماجاء في المہدي (2230)، أحمد (1/ 471)، أبو داؤد (4282)، ابن حبان (15/ 236)، طبراني 10/133۔ [2] ابو داؤد کتاب المہدی (4283)، شرح السنۃ (7/ 457)، السلسلۃ الصحیحۃ (2/ 336)۔