کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 167
سے(جنت کا) سوال کرو، تو اس سے(جنت) الفردوس مانگو۔ بیشک یہ جنت کا اوسط درجہ ہے، اور اعلی ترین مقام ہے، اور اس کے اوپر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے، اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔‘‘ مصنف کا فرمان:(اللہ تعالیٰ کو جنتیوں کی تعداد… کا علم ہے): کون جنتی ہوگا اور کون جہنمی ہوگا ؟اس کا اللہ تعالیٰ کو مکمل علم ہے اور ان میں سے ہر ایک ٹھکانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حقدار مخلوق پیدا کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِن بَنِیْ آدَمَ مِن ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَأَشْہَدَہُمْ عَلَی أَنفُسِہِمْ أَلَسْتَ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلَی شَہِدْنَا أَن تَقُولُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِیْنَ﴾(الاعراف: 172) ’’ اور جب تمہارے رب نے بنی آدم سے یعنی اُن کی پیٹھوں سے اُن کی اولاد نکالی تو اُن سے خود اُن کے مقابلے میں اقرار کرا لیا(یعنی اُن سے پوچھ لیاکہ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ وہ کہنے لگے کہ کیوں نہیں[آپ ہمارے رب ہیں]، ہم [اس پر ] گواہ ہیں(کہ آپ ہمارے رب ہیں، یہ اقرار اس لیے کرایا تھا) کہ قیامت کے دن(کہیں یوں نہ) کہنے لگو کہ ہمیں تو اس کی خبر ہی نہ تھی۔‘‘ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، تو اپنا داہنا ہاتھ ان کی پیٹھ پر پھیرا، اور اس سے ان کی اولاد کو نکالا، اور فرمایا: ان کو میں نے جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ اہل جنت کے کام ہی کریں گے۔ پھر ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا، اور اس سے ان کی اولاد کو نکالا اور فرمایا: ان کو میں نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے، اور یہ جہنمیوں والے کام کریں گے۔‘‘[یہ سن کر] ایک آدمی کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا:’’ اے اللہ کے رسول! [اگر ایسا ہی معاملہ ہے] توپھر عمل کس لیے کئے جائیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب اللہ تعالیٰ نے کسی کو جنت کے لیے پیداکیا تواسے اہل جنت کے کاموں میں لگادیا، یہاں تک کہ اس کی موت اہل ِ جنت کے کاموں پر آتی ہے اور جب کسی انسان کو جہنم کے لیے پیدا کیا، اور اسے اہل ِ جہنم کے کاموں میں لگا دیا، یہاں تک کہ اس کی موت ان جہنمیوں کے کاموں پر آتی ہے، اور وہ اس وجہ سے جہنم میں داخل کردیا جاتا ہے۔‘‘[1] حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ہم ایک جنازہ کے ساتھ بقیع غرقد میں تھے، فرماتے ہیں:’’ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اور بیٹھ گئے، ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لاٹھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر کے لیے سر جھکایا، اور اپنی لاٹھی سے زمین پر مارنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کوئی بھی
[1] رواہ الترمذي [3075]،ابو داؤد [ 4703]، والنسائی [210]۔