کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 151
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ہی دوسری روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إذا دخلوا أہل الجنۃ الجنۃ، وأہل النار النار، قال اللّٰه برحمتہ: انظروا من کان في قلبہ حبۃ من خردل من إیمان، فأخرجوہ من النار، قال: فأخرجوا، و قد عادوا حمماً، فیلقون في نہر یسمی نہر الحیاۃ، فینبتون کما ینبت الغثاء في حمیل السیل أو إلی جانب السیل، ألم تروا أنہا تأتي صفراء ملتویۃ)) [1] ’’ جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے، اور جہنمی جہنم میں داخل ہوجائینگے۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے فرمائیں گے: دیکھو ! جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان پاؤ، اسے جہنم سے نکال دو۔ فرمایا: پھر انہیں نکالا جائے گا، اور وہ کوئلہ بن چکے ہوں گے۔ انہیں ایک نہر میں ڈالا جائے گا جس کا نام ہوگا ’’نہر حیات۔‘‘وہ اس نہر پر ایسے اگیں گے جیسے سیلاب کی جھاگ میں کونپل اگتی ہے، یا اس کی ایک جانب۔کیا تم دیکھتے نہیں ہو[کہ وہ کونپل ] کیسے لپٹی ہوئی پیلے رنگ میں چڑھتی ہے؟‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یخرج من النار قوم بعد ما یصیبہم منہا سفع، فیدخلون الجنۃ، یسمیہم أہل الجنۃ الجہنمیین))[2] ’’ جہنم سے ایک قوم کو نکالا جائے گا اس کے بعد کے آگ نے انہیں جلا ڈالا ہوگا، وہ جنت میں داخل ہوں گے، اور انہیں اہل جنت جہنمی کہیں گے۔‘‘ پل صراط قیامت والے دن جو کچھ امور پیش آئیں گے ان میں سے ایک پل صراط کو بھی پار کرنا ہوگا۔ یہ ایک پل ہے جو میدان حشر سے جنت میں جانے کے لیے جہنم پر لگایا جائے گا۔ یہ پل بال سے زیادہ باریک تلوار سے زیادہ تیز انگارے سے زیادہ گرم ہوگا۔ لوگ اس پر اپنے اعمال کے لحاظ سے چلیں گے۔جو کوئی اس پل کو پار کر لے گا وہ کامیاب ہوجائے گا(اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان ہی لوگوں میں سے بنادے)اورجو کوئی پار نہ کرسکے، وہ ہلاک ہوگیا(اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے)۔اس پل پر ایمان لانا کتاب و سنت سے ثابت اور اہل سنت و الجماعت کے متفق علیہ عقائد میں سے ہے۔ ذیل میں مصنف رحمہ اللہ اس کے بارے میں بیان کررہے ہیں:
[1] البخاری (6560) و مسلم (184) مختصر الشریعہ ص190 عبدالرزاق في المصنف (802)۔ [2] البخاری (6559) مختصر الشریعہ ص 191 عبدالرزاق في المصنف (804)۔ شفاعت کے بارے میں وارد احادیث اور اس کی اقسام کے لیے دیکھیں: النہایۃ لابن کثیر (2/139 -176)، اور شرح العقیدۃ الطحاویۃ، لابن أبی العز الحنفی (223- 237بشیر عیون)، اور کنز العمال (14/390-415)، معارج القبول (2/ 208-223)۔