کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 137
’’جو لوگ کافر ہیں اگر اُن کے پاس روئے زمین(کے تمام خزانے اور اس) کا سب مال و متاع ہو اور اس کے ساتھ اسی قدر اور بھی ہو تاکہ قیامت کے روز عذاب(سے چھٹکارا حاصل کرنے) کا بدلہ دیں تو اُن سے قبول نہیں کیا جائے گا اور اُن کو دردناک عذاب ہو گا۔(ہرچند) چاہیں گے کہ آگ سے نکل جائیں مگر اُس سے نکل نہیں سکیں گے اور اُن کے لیے ہمیشہ کا عذاب ہے۔‘‘ اور فرمایا: ’’ کیا تم قرآن میں نہیں پڑھتے: ﴿عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا﴾(الاسراء: 79) ’’ قریب ہے کہ اللہ آپ کو مقامِ محمود پر فائز کردے۔‘‘ فرمایا: ’’ سو بیشک اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ان گناہوں کی وجہ سے عذاب دیں گے اور اگر وہ چاہے گا کہ انہیں اس عذاب سے نکال دے، تو وہ انہیں نکال دے گا۔-یزید رحمہ اللہ-کہتے ہیں کہ: ’’ اس دن کے بعد میں نے کبھی اس عقیدہ کو جھٹلایا نہیں۔ ‘‘[1] حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لکل نبي دعوۃ مستجابۃ، فتعجل کل نبي دعوتہ، وإني أختبأت دعوتي شفاعۃ لأمتي إلی یوم القیامۃ، فھي نائلۃ إن شاء اللّٰہ لمن مات و لم یشرک باللّٰہ شیئاً)) [2] ’’ ہر ایک نبی کے لیے ایک مقبول دعا ہوتی ہے اور میں نے اپنی دعا کو قیامت والے دن اپنی امت کے لیے شفاعت کے طورپر بچا کر رکھا ہے۔ یہ ان لوگوں کو حاصل ہوگی جو اس حالت میں مریں گے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کچھ بھی شریک نہ ٹھہرایا ہو۔‘‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((شفاعتي لأہل الکبائر من أمتي)) [3] ’’ میری شفاعت میری امت کے بڑے گنہگاروں کے لیے ہے۔‘‘ حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم کسی سفرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔-پھر ایک لمبی حدیث بیان کی-جس میں ہے-:’’ بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ((أتاني اللیلۃ آتٍ من ربي، فخیرني بین الشفاعۃ و بین أن یدخل نصف أمتي الجنۃ، فاخترت الشفاعۃ۔‘‘فقلنا: یا رسول اللّٰہ! اجعلنا في شفاعتک۔ فقال: إنکم
[1] صحیح ۔ رواہ عبدالرزاق في المصنف (774) مختصر الشریعہ ص 186۔ [2] رواہ البخاری برقم6304، مسلم برقم198۔عبدالرزاق في المصنف 786، مختصر الشریعہ 188۔ [3] رواہ الترمذي برقم 2566، ابن ماجہ برقم 4310، مختصر الشریعہ 188 عبدالرزاق في المصنف 778۔