کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 121
27۔ دسویں دلیل:… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کو عذاب قبر کے بارے میں خبر دینا: حضرت أسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ((قام رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم خطیباً فذکر فتنۃ القبرالتي یفتتن فیہا المرء، فلما ذکر ضج المسلمون ضجۃ)) [1] ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوگئے، اور آپ نے قبر کی آزمائشوں کا ذکر کیا جن سے آدمی کو آزمایا جاتا ہے، جب آپ نے ان کا تذکرہ کیا تو مسلمان ایک بار کانپ کر رہ گئے۔‘‘ 28۔ گیارہویں دلیل:… قبروں پر بیٹھنے کی اوران کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کی ممانعت: اگر ان قبروں میں کچھ بھی باقی نہ ہوتا، اورایسے ہی خالی گڑھا ہوتیں تو پھر ان پر بیٹھنے سے منع کیوں کیا جاتا، اور نماز سے کیوں روکا جاتا؟ حضرت أبو مرثد غنوی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لا تجلِسوا علی القبورِ ولا تصلوا إِلیہا))[2] ’’ قبروں پر مت بیٹھو، اورنہ ہی ان کی طرف رخ کرکے نماز پڑھو۔‘‘ 29۔ بارہویں دلیل:… آگ پر بیٹھ کر جل جاناقبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لأن یجلِس أحدکم علی جمرۃ فتحرِق ثِیابہ فتخلص إلی جِلدِہِ خیر لہ مِن أن یجلِس علی قبر)) [3] ’’ اگر تم میں سے کوئی ایک انگارے پر بیٹھے، اوروہ اس کے کپڑے کو جلا کر اس کی جلد تک پہنچ جائے، یہ اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ قبر پر بیٹھے۔‘‘ 30۔ تیرہویں دلیل:… قبر کی آزمائش دجال کے فتنہ کے برابر یا اس کے قریب تر ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ولقد أوحِيَ إِليَّ أنکم تفتنون فِی القبورِ مِثل أو قرِیب مِن فِتنۃِ الدجالِ)) [4] ’’بیشک میری طرف وحی کی گئی ہے کہ تمہیں قبروں میں آزمایا جاتا ہے مانند دجال کے فتنہ کے یا اس سے قریب تر۔‘‘ 31۔ چودہویں دلیل:… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اہل قبور کے خیرو شر کے بارے میں اطلاع، اور
[1] صحیح البخاري،باب: ما جاء في عذاب القبر: 1307۔ [2] صحیح مسلم، باب: النہي عن الجلوس علی القبر و الصلاۃ علیہ، ح: 2294۔ [3] سنن أبي داؤود، باب في کراہیۃ القعود علی القبر، برقم3230۔ [4] رواہ البخاری، باب: من لم یتوضأ إلا من الغشي المثقل، ح:184۔