کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 120
فشقھا نصفین،فغرز فی کل قبر واحدۃ،فقالوا: ’’یارسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم لما فعلت ھذا؟ فقال:((لعلہ یخفف عنہما ما لم ییبسا))(متفق علیہ) ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں پر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ان دونوں کو عذاب ہورہا ہے اور کسی بڑے گناہ میں عذاب نہیں ہو رہا، ان میں سے ایک پیشاب میں احتیاط نہیں کرتا تھا،اور دوسرا چغل خوری کرتا پھرتا تھا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لی، اور اس کو بیچ سے چیر کر دو کردیا،اور ہر ایک قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا۔ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’شاید جب تک یہ نہ سوکھیں ان کا عذاب ہلکا ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ ان قبر والوں کی آواز سنا کر آپ پر ان کو ہونے والے عذاب اور اس کا سبب بھی ظاہر کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کی ایک جماعت بھی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی خبر دی۔تاکہ وہ ان اسباب عذاب سے بچ سکیں۔یہ حدیث صریح نص اور واضح حجت ہے ان لوگوں پر جو عذاب قبر کے منکر ہیں۔ بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ جو لوگ غرق ہوگئے، یا جن کی لاشیں پرندے کھا گئے، یا پھر انہیں درندوں نے کھا لیا، اور وہ لوگ جو قبروں میں دفن نہیں کیے گئے، اور جلادیے گئے، انہیں عذاب ِ قبر کیسے ہوگا؟ یہ اشکال صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت پر کامل ایمان نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر یہ یقین کرلیا جاتا کہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ مردہ کے اجزاء کو جمع کر کے جیسے چاہے انہیں عذاب دے۔چنانچہ بخاری شریف کی روایت کفن چور کے حوالے سے چھٹی دلیل میں گزر چکی ہے۔ 26۔ نویں دلیل:… قبر کا(دباؤ)جھٹکا، جس سے کوئی بھی نجات نہیں پائے گا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إن للقبر ضغطۃ، ولوکان أحد ناجیا منہا، نجا منہا سعد ابن معاذ))[1] ’’ بیشک قبر کا ایک دباؤ ہے، اور اگر اس سے کوئی نجات پانے والا ہوتا تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اس سے نجات پاتے۔‘‘ اور انہی کے متعلق ایک دوسری روایت میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ(حضرت سعد رضی اللہ عنہ) ایسا شخص ہے جس کی وفات پر(اللہ تعالیٰ کا) عرش ہل گیا تھا، اورجس کے لیے آسمانوں کے دروازے کھل گئے تھے اور جس کے جنازے میں ستر ہزار فرشتے شریک ہوئے، اسے بھی قبر نے ایک مرتبہ دبایا اور پھر چھوڑ دیا۔‘‘[2]
[1] مسند أحمد بن حنبل: 24328۔ وصحیح ابن حبان:3112، قال شعیب أرناؤوط: صحیح علی شرط مسلم ۔ [2] النسائی، کتاب الجنائز، باب ضمۃ القبر وضغطتہ، ح: 2057۔