کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 115
مردے نکل پڑیں(۔(اس وقت)ہر شخص جا ن لے گاجو(عمل) اس نے آگے بھیجا اور جو(نشان اس نے دنیا میں) پیچھے چھوڑا۔‘‘ اگر اس میں ذرا بھر بھی اس بات کی کوئی گنجائش ہوتی کہ اس سے مراد یہ قبریں نہیں ہیں تو اس کی طرف کم از کم اشارہ کردیا جاتا۔لوگ برزخ سے سیدھا میدان حشر میں آئیں گے۔ کیونکہ اس وقت پھر قبروں کا کھولاجانا،اور ان سے مردوں کا نکلنا، ان کا آپس میں ایک دوسرے سے سوال کرنا، کفار او رمجرمین کا ہائے افسوس کرنا، اور ایمان والوں کا تسلی کے ساتھ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں پر ایمان کا اظہار کرنا کوئی معنی نہ رکھتا۔ 15۔ پندرہویں دلیل:… قبریں آخر کار کھولی جائیں گی اور اہل قبور ان سے باہر آجائیں گے اور انہوں نے جو کچھ کیا وہ ان کے سامنے پیش ہوگا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اَفَلَا یَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِ o وَحُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِ ﴾(العادیات: 9، 10) ’’کیا وہ نہیں جانتا کہ جب قبروں کے مردے کرید کر نکالے جائیں گے۔اور جو باتیں(بری یابھلی)دلوں میں ہیں، وہ کھل جائیں گی۔‘‘ 16۔ سولہویں دلیل:…اہل سنت و الجماعت کے مختلف مذاہب میں شروع سے ایک اختلافی مسئلہ سماعِ موتیٰ کا بھی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مردے سنتے ہیں، اور کچھ کہتے ہیں مردے نہیں سنتے۔ نفس ِ مسئلہ میں اختلاف کی تفصیل سے قطع نظر، یہاں پر ایک آیت بیان کی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآئُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ اِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآئُ وَ مَآ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ﴾(فاطر:22) ’’اور زندے اورمردے برابر نہیں ہیں(یعنی مومن اورکافر)بے شک اللہ جس کوچاہتا ہے اس کو(حق بات) سن لینے کی توفیق دیتاہے اور(اے پیغمبر)تو ان لوگوں کو نہیں سنا سکتا جو قبروں میں ہیں۔‘‘ بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے: ((حین تبوؤوا مقاعدہم من النار)) [1] ’’ یہ اس وقت ہوگا جب وہ اپنے ٹھکانے آگ میں بنالیں گے۔‘‘ یہ آیت انتہائی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو قبروں میں پڑے ہوئے مردوں کو سنا سکتاہے، انہیں احساس دلا سکتا ہے۔ مگر اللہ کے بغیر کسی کے بس میں یہ بات نہیں ہے۔اور کفار کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کردی کے ان کے جہنم میں چلے جانے کی وجہ سے انہیں کوئی بات نہیں سنائی جاسکتی۔ قرآن میں اتنے دلائل ہونے کے باوجود کوئی نہ مانے تو اس کی مرضی ہے، تاہم اتمام حجت کے لیے احادیث
[1] رواہ البخاری، کتاب التفسیر۔ح: 3979۔ مسلم کتاب الجنائز، باب: المیت یعذب ببکاء أہلہ علیہ، برقم:931۔