کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 113
یہ امت کے علماء ہیں جن آیات کو اسی طرح سمجھے ہیں، اور ان کی تفسیر ہی آج تک نقل کی جاتی رہی ہے۔
10۔ دسویں دلیل:… اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ قیامت عنقریب آنے والی ہے، اس وقت اللہ ان لوگوں کو اٹھائیں گے جو کہ قبروں میں ہیں، اور انہیں ایک دوسری زندگی عطا کی جائے گی، جو ابھی تک عطا نہیں ہوئی۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَتَرَی الْاَرْضَ ہَامِدَۃً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآئَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَ اَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍ م بَہِیْجٍ o ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ وَاَنَّہٗ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَاَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo وَّاَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ لَّا رَیْبَ فِیْہَا وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِo﴾(حج: 5 تا 7)
’’ تودیکھتاہے زمین سوکھی(اس پر سبزی کا نام نہیں)پھر جب ہم اس پر پانی برسادیتے ہیں تووہ(سبزے سے)لہلہانے او ر ابھرنے لگتی ہے اور ہر قسم کی رونق دار چیزیں اُگاتی ہے۔یہ سب اس وجہ سے کہ اللہ وہی حق ہے اوروہی مردوں کو(قیامت کے دن) جلائے گا اوروہی سب کچھ کرسکتاہے۔اور قیامت ضرور آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں اورجو لوگ قبروں میں ہیں ان کو اللہ تعالیٰ ضرور جلا اٹھائے گا۔‘‘
مفسر علامہ شنقیطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ ان تمام لوگوں کو اٹھایا جائے گا جنہیں قبروں میں دفن کیا گیا ہے یا دفن نہیں کیا گیا ‘‘ [1]
11۔ گیارھویں دلیل: …اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ انسان کو اسی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے، اور پھر وہ اسی مٹی میں دوبارہ لوٹایا جائے گا،(بھلے اس کی قبر کھودی جائے یا نہیں، جہاں بھی اس کی خاک(زمین کی)خاک میں مل جائے گی وہیں اس کی قبر ہوگی)او رپھر اسی مٹی(قبر) سے اسے دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿مِنْہَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْہَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی﴾(طہ:55)
’’ہم نے تم کو اسی زمیں سے) پیدا کیا اور اسی میں(مرنے کے بعد)پھر لیجائیں گے اور اسی سے تم کو دوسرے بار(قیامت کے دن)نکالیں گے۔‘‘
12۔ بارہویں دلیل:… جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ لوگ تو مرکر گل کھپ چکے ہوں گے، اور قبروں میں کچھ بھی باقی نہیں بچا ہوگا تو کس چیزکو دوبارہ زندہ کیا جائے گا؟ ان کا کہنا یہ ہے کہ تمام تر آخرت کا عذاب و ثواب روح کے ساتھ ہے۔
جواب:… اللہ تعالیٰ جو علیم و قدیر ہے، اس نے اپنے سابق علم کی بنا پر پہلے سے ہی اپنی قدرت کے بارے میں آگاہ کردیا تھا کہ وہ جیسے چاہے کرسکتا ہے، اور ان لوگوں کا اعتراض ذکر کرکے اس پر رد بھی کیا تھا جو سابقہ دور میں اس قسم کی باتیں کیا کرتے تھے، فرمایا:
﴿وَقَالُوْٓا ئَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًا ئَ اِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا o قُلْ کُوْنُوْا حِجَارَۃً
[1] أضواء البیان 6/127۔