کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 112
’’اور صور پھونکا جائے گا تو وہ ایک دم اپنی قبروں سے نکل کر اپنے مالک کی طرف دوڑ پڑیں گے۔کہیں گے ہائے ہماری خرابی، کس نے ہم کو ہماری آرام گاہ سے اٹھادیا(فرشتے جواب دیں گے) یہی تووہ(قیامت) ہے جس کا پروردگار نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کہا تھا۔‘‘ نہ ماننے والے ضدی انسان کا کوئی حل نہیں ہوتا۔ جب کہ یقین رکھنے والے مؤمنین کے لیے اللہ تعالیٰ کا قرآن بار بار اس بات کی تاکید کررہا ہے کہ انسان کو اسی مٹی میں واپس جانا ہے، اور قیامت تک پھر اسی میں رہے گا،اور پھر دوبارہ اسی مٹی سے اٹھایا جائے گا۔ جیسا کہ مندرجہ بالا آیت میں بھی ہے کہ وہ لوگ قبروں سے اٹھیں گے، اور یہ کہیں گے ہمیں ہماری آرام گاہ سے کس نے بیدار کردیا ؟آیت کا پہلا جملہ(یٰوَیْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا) دلالت کرتا ہے کہ یہ کفار کا کلام ہے، اس لیے کہ قیامت و الے دن حسرت و افسوس کرنے والے وہی ہوں گے۔اور دوسرا جملہ:(ہٰذَا مَاوَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ) اہل ایمان کی طرف سے کفار کو جواب ہے۔ جو وہ قیامت والے دن دیں گے۔ کماقالہ معمر و قتادہ ونقل الطبری و عبد الرزاق الصنعاني في تفسیریہما۔ اگر یہ سب کچھ قبروں میں نہیں ہونا تو پھر زمین سے اٹھایا جانا کیا معانی رکھتا ہے ؟ اس آیت کی تفسیر میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((وثب القوم من قبو رہم لما سمعوا الصیحۃ، ینفضون التراب من رؤوسہم، و یقول المؤمنون: سبحانک وبحمدک، ما عبدناک حق عبادتک)) [1] ’’ جب لوگ صور پھونکنے کی آواز سنیں گے تو اپنی قبروں سے اٹھ پڑیں گے اور اپنے سروں سے مٹی جھاڑ رہے ہوں گے۔اور مؤمنین کہیں گے: ’’ تیرے لیے ہی پاکی ہے، اور تیری حمد و ثناہے، ہم نے تیری عبادت کی ہی نہیں، جس طرح کہ تیرے لیے عبادت کرنے کا حق تھا۔‘‘ حضرت وھب بن منبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((یبلون[الموتی] فی قبورہم، فإذا سمعوا الصرخۃ،عادت الأرواح إلی الأبدان، والمفاصل بعضہا إلی بعض، فإذا سمعوا النفخۃ الثانیۃ وثب القوم قیاماً علی أرجلہم ینفضون التراب عن رؤوسہم)) [2] ’’ وہ[مردے ]اپنی قبروں میں پڑے بوسیدہ ہوتے رہیں گے۔ جب وہ پہلی بار نفخ ِ صور سنیں گے تو روحوں کو جسموں میں لوٹا دیا جائے گا، اور جوڑ آپس میں مل جائیں گے اور جب دوسری بار نفخ ِ صور سنیں گے تو لوگ اپنے پاؤں پر اٹھ کھڑے ہوں گے، اور وہ اپنے سروں سے مٹی جھاڑ رہے ہوں گے۔‘‘
[1] الأہوال ص 114۔ [2] الأہوال لابن ابی الدنیا ص86، کتاب القبور 16، البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر 1/183۔