کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 109
تعالیٰ اپنی قدرت سے اسے عذاب دیتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿النَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْا آلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ (غافر: 46) ’’(ڈوبے تو سمندر میں)لیکن صبح اورشام ان کو(دوزخ کی) آگ دکھلائی جاتی ہے اور جس دن قیامت برپا ہوگی فرعون والوں کو سخت سے سخت عذاب میں لے جاؤ۔‘‘ اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ’’ قیامت تک تو انہیں صبح و شام آگ پر پیش کرکے عذاب دیا جائے گا، جس میں ان کی ذلت رسوائی اور ہتک ہوگی اور قیامت والے دن انہیں حکم دیا جائے گا، اور یہ لوگ انتہائی سخت عذاب میں داخل ہوجائیں گے۔‘‘[1] یہاں پر دو علیحدہ علیحدہ عذاب مذکور ہیں۔ قرآن کی تصریح سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کو صبح و شام عذاب ہوتاہے۔ مگر ہمیں اس کا ادراک اور احساس نہیں۔ ایسے ہی اہل قبر کو بھی عذاب توہوتا ہے، مگر ان کے اس عذاب کا ہمیں ادراک نہیں۔ اگر ہم یہ احساس کرنے لگ جائیں، تو مردوں کو دفناناترک کردیں۔ یہ واقعہ ان لوگوں کی دلیل نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ آل فرعون کا مسئلہ اپنے باب میں شاذ ہے، کائنات میں کسی اور کے ساتھ ایسا نہیں ہوا اور شاذ سے استدلال نہیں کیا جاتا۔ 3۔ تیسری دلیل:… اللہ تعالیٰ نے ظالموں کے لیے قیامت کے عذاب سے پہلے بھی ایک عذاب بتایا ہے، اگر وہ عذاب قبر میں نہیں ہے تو وہ کہاں ہے؟ جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَاِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا عَذَابًا دُوْنَ ذٰلِکَ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ ﴾(طور: 47) ’’اور ان ظالموں کو اس(عذاب یعنی عذابِ قیامت)سے پہلے ہی ایک عذاب ہوینوالا ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ حق بات تو یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں ظالموں کے لیے عذاب کا جملہ ﴿عَذَابًا دُوْنَ ذٰلِک﴾(یعنی قیامت سے پہلے عذاب ہونے والاہے) اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مجرمین اور ظالموں کے لیے دو طرح کے عذاب ہیں۔ایک عذاب تو آخرت میں ہوگا، اور ایک عذاب اس سے پہلے ہوگا۔ یہ پہلے ہونے والا عذاب قبر کا عذاب ہے۔ 4۔ چوتھی دلیل:… سابقہ دلیل کے مشابہ ایک اور دلیل ہے، کہ اللہ نے جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کو ہلاک کیا تو انہیں فوراً ایک عذاب میں داخل کردیا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿مِمَّا خَطِیَٔاتِہِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا فَلَمْ یَجِدُوْا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْصَارًا ﴾(نوح: 25)
[1] تفسیر الطبری 27/ 36