کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 106
ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق اپنی قدرت اور عدل کے کمال کے اظہار کے لیے جب اورجس چیز کا چاہیں وزن کردیں۔
مصنف کا قول:(… اس کے دو پلڑے ہیں، اور ایک زبان ہے):
اس کی تخریج ابو شیخ نے اپنی تفسیر میں کی ہے، جیساکہ الدر المنثور میں(3/418) پر کلبی کی سند سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت موجود ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’ ترازو کے دو پلڑے اور زبان(درمیانی ڈنڈی) ہے۔‘‘
کلبی پر جھوٹ بولنے کی تہمت ہے، جیسا کہ ’’تقریب ‘‘ میں(ص 479)پر ہے۔[1]
اگرچہ اس روایت کے راویوں پرجرح کی گئی ہے۔ لیکن دوسری کئی ایک احادیث اور ائمہ سلف کے اقوال اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ قیامت والے دن نصب ہونے والے میزان کے دو پلڑے اور ایک زبان ہوگی۔ مجموعی طور پر اس روایت کو صحت کا درجہ حاصل ہے، اور اس کا انکار ممکن نہیں۔ بعض علمائے کرام نے قیامت کے اس ترازو کی صفات بیان کرتے ہوئے بھی ان چیزوں کو ذکرکیاہے۔ اس مسئلہ میں پوری تفصیل کے ساتھ عربی میں میرا بھی ایک رسالہ ہے، جس کا نام ہے ’’ خیر الإثاث فی بیان مواطن الثلاث ‘‘ اس میں مذکورہ بالا کتب کے علاوہ لگ بھگ ڈیڑھ سو کتب سے استفادہ کیا گیا ہے، اس کا مطالعہ بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔
عذاب قبر اور منکر و نکیر
اہل ِ سنت و الجماعت قبر کے عذاب پر اور قبر میں کئے جانے والے سوال و جواب پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی ایمان ہے کہ نیک انسان کو قبر میں ایسی ہی نعمتیں دی جاتی ہیں جیسے بد انسان کو عذاب دیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ان کی قبروں سے نہ اٹھالے۔
قبر دنیا اور آخرت کے مابین کی منزل ہے۔ اسی وجہ سے اسے برزخ بھی کہتے ہیں۔ برزخ کا معنی ہے رکاوٹ، جیساکہ فرمان ِ الٰہی ہے:
﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ o بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیَانِ ﴾(الرحمن: 19, 20)
’’اسی نے دو دریا یا(میٹھے اور کھاری)چھوڑ دیتے ہیں دونو(دیکھنے میں)ملکر چلتے ہیں(پرملتے نہیں)۔ان کے بیچ میں ایک آڑ ہے ایک دوسرے پر بڑھ نہیں سکتے۔‘‘
یعنی دونوں دریاؤوں کے پانیوں کے درمیان ایسی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے نمکین اور میٹھا پانی آپس میں مل نہیں سکتے۔ اسی سے قبر کو برزخ بھی کہا جاتا ہے۔ جو کہ دار دنیا اور دار آخرت کے درمیان ایک گھر ہے اسے دار برزخ بھی کہتے ہیں۔ قبر میں انسان کا یہ ٹھہراؤ بطور زیارت کے ہوتا ہے، اس کے بعد اس نے اگلے گھر کے لیے کوچ کرنا ہوتا ہے۔
[1] تحقیق البرہان فيإثبات حقیقۃ المیزان ‘‘ لمرعی حنبلی (52)، ومجموع الفتاوی لابن تیمیہ رحمہ اللّٰه (4/302)۔