کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 104
’’پھر جس کی تولیں(نیک اعمال کی) بھاری نکلیں گی۔وہ تو چین سے گزران کرے گا۔اور جس کی(نیک اعمال کی) تولیں ہلکی نکلیں گی۔اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہوگا۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کفار کے اعمال کے وزن کی نفی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ﴿اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ وَلِقَآئِہٖ فَحَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَلَا نُقِیْمُ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَزْنًا﴾(الکہف: 105) ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں اور اس کے سامنے جانے سے انکار کیا تو ان کے اعمال ضائع ہو گئے اور ہم قیامت کے دن ان کے لیے کچھ بھی وزن قائم نہیں کریں گے۔‘‘ اس دن میں کمال عدل اور میزان کی حکمت و مصلحت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْئًا ط وَاِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِہَاط وَکَفٰی بِنَا حٰسِبِیْنَ﴾(الانبیاء: 47) ’’ اور ہم روزِقیامت انصاف کا ترازو کھڑا کریں گے تو کسی شخص کی ذرا بھی حق تلفی نہ کی جائے گی اور اگر رائی کے دانے کے برابر بھی(کسی کا عمل) ہو گا تو ہم اُسکو لا حاضر کریں گے اور ہم حساب کرنے کو کافی ہیں۔‘‘ جہاں ترازو کے نصب کیے جانے میں کمال ِ عدل کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے یعنی اچھائیوں اور برائیوں کے وزن کرکے ان پر اتمام حجت کرے گا، وہیں دوسری حکمت کمال ِ رحمت و شفقت کا اظہار بھی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یؤتی یوم القیامۃ برجل إلی المیزان، ویؤتی بتسعۃ و تسعین سجلًا، کل سجل منہا مد البصر، فیہا خطایاہ، وذنوبہ، فتوضع في کفۃ المیزان، ثم یخرج بطاقۃ بقدر أنملۃ فیہا ’’ شہادۃ أن لا إلہ إلا اللّٰه وأن محمداً رسول اللّٰه، فتوضع في الکفۃ الأخری، فترجح بخطایاہ و ذنوبہ))[1] ’’ ایک انسان کو قیامت والے دن میزان کی طرف لایا جائے گا، اورنامہ اعمال کے ننانوے دفتر لائے جائیں گے، ہر ایک دفتر تاحد ِ نگاہ پھیلا ہوگا، ان میں اس کے گناہ اور خطائیں ہوں گی۔ سو وہ دفتر ترازو کے ایک پلڑے میں رکھے جائیں گے، اور پھر انگلی کے برابر ایک بطاقہ نکالا جائے گا جس میں: ’’ لاإلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کی گواہی ہو گی، اسے ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھا جائے گا تو یہ-گناہوں اور خطاؤوں والے پلڑے پر-بھاری ہوجائے گا۔‘‘ یہ ترازو اتنا بڑا ہوگا کہ اگر اس کے ایک پلڑے میں زمین وآسمان رکھ دیے جائیں تب بھی وہ نہ بھر سکے۔
[1] رواہ أحمد 2/ 213، مختصر الشریعہ ص 207، عبدالرزاق في المصنف 896، صحیح۔