کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 102
کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ o وَ لَنْ یَّتَمَنَّوْہُ اَبَدً ا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالظّٰلِمِیْنَ﴾ (البقرۃ: 94-95) ’’مگر جو(بُرے) کام وہ پہلے کر چکے ہیں ان کی وجہ سے موت کی آرزو کبھی نہیں کرنے کے اور اللہ تعالیٰ بے انصافوں کو خوب جانتا ہے۔اور(محمد) تو تو ان لوگوں کو سب لوگوں سے زیادہ زندگی پر ریجھے ہوئے پائے گا یہاں تک کہ مشرکوں سے بھی زیادہ ان میں کا ایک ایک یہ چاہتا ہے کہ اس کی عمر ہزار برس کی ہو حالانکہ اتنی عمر پانا بھی اس کو عذاب سے نہیں چھڑا سکتا اور اللہ تعالیٰ ان کے کام دیکھ رہا ہے۔‘‘ اس آیت کے مطابق یہود کبھی بھی موت کی تمنانہیں کریں گے، مگر اس کے ساتھ ہی قرآن میں یہ بھی آیا ہے کہ جب ان کا واسطہ آخرت کے عذاب سے پڑے گا تو وہ موت کی تمناکریں گے تاکہ اس عذاب سے نجات حاصل کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَنَادَوْا یَامَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّکَ قَالَ اِنَّکُمْ مَاکِثُوْنَ ﴾(الزخرف: 77) ’’اور دوزخی(داروغہ کو) پکاریں گے او مالک(کچھ ایسا کر)کہ تمہارا پرودگارہمارا کام تمام کر دے وہ کہے گا تم کوتو(اسی حال میں)رہنا ہیں۔‘‘ یعنی اس وقت وہ موت کی تمنا کریں گے، مگر انہیں موت نہیں آئے گی۔ اس سے ان کا شبہ رفع ہوگیا کہ لفظ: ’’لَنْ‘‘ سے نفی ہمیشگی کے لیے ہوتی ہے۔ عربی زبان کے مشہور ثقہ عالم ابن مالک اپنی کتاب ’’ الکافیۃ الشافیۃ ‘‘ میں فرماتے ہیں: ومن یری النفی بلن مؤبدا فقولہ ازدد و سِواہ فَاعضُدا ’’ جس کا خیال یہ ہو کہ لفظ:’’لَنْ‘‘سے نفی ہمیشہ کے لیے ہوتی ہے، تو اس کے قول کو رد کیجیے، اوراس کے علاوہ(دوسرے)قول کی حمایت کیجیے۔‘‘ شبہ دو م: ان لوگوں کادوسرا شبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے متعلق فرماتے ہیں: ﴿لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ وَ ہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَ وَ ہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ﴾(الانعام: 103) ’’آنکھیں اس کو نہیں دیکھ سکتیں اور وہ آنکھوں کو دیکھتا ہے اور وہ مہربان ہے(یا لطیف ہے کثیف نہیں) خبردار۔‘‘ جواب:… اس آیت مبارک میں دیدارِ الٰہی کی نفی نہیں ہے، بلکہ ادراک کی نفی ہے جو کہ احاطہ کے معنی میں ہے۔ ذات باری تعالیٰ کا احاطہ تو کوئی بھی نہیں کرسکتا، اس پر ہمارا بھی ایمان ہے۔مگر احاطہ کرنا ایک علیحدہ امر ہے، جب کہ دیدارِ الٰہی ایک علیحدہ امر ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا دیدار نصیب فرمائے۔