کتاب: شرحُ السنہ - صفحہ 101
دوسرے مرحلہ میں صرف مسلمان ہی اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے، کافروں اور منافقوں سے اپنی شان کے لائق اللہ تعالیٰ پردہ فرمالیں گے۔ بعض علماء نے حشر میں دیدار ِ الٰہی کے تین مراحل بیان کئے ہیں۔ پہلے مرحلہ میں تمام بشریت اللہ تعالیٰ کا اجمالی دیدار کرے گی۔ دوسرے مرحلہ میں صرف کفار کو یہ دیدار نصیب نہیں ہوگا، مؤمنین اور منافقین دیدار کریں گے، منافقین اس لیے تاکہ ان کا شوق دیدار بڑھے، مگر تیسرے مرحلہ میں انہیں بھی یہ دیدار نصیب نہیں ہوگا، جس کی وجہ سے ان کا عذاب اور بڑھ جائے گا-اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے، آمین-۔ مصنف رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہی مقصود ہے۔ جب کہ خاص دیدار ِ الٰہی جنت میں مؤمنین کو ہی نصیب ہوگا-اللہ تعالیٰ ہمیں بھی انہی لوگوں میں سے کردے-، اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ہم کلام بھی ہوں گے۔ دیدارِ الٰہی کے منکر فرقے اپنی عادت کے مطابق متشابہ آیات سے استدلا ل کرتے ہیں۔ ان کا شبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا ہے کہ تم مجھے ہر گز نہیں دیکھ سکتے۔ تو پھر کبھی بھی اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن نہیں ہے۔ وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں: ﴿وَ لَمَّا جَآئَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَ کَلَّمَہٗ رَبُّہٗ قَالَ رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ قَالَ لَنْ تَرٰینِیْ وَ لٰکِنِ انْظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوْفَ تَرٰینِیْ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا فَلَمَّآ أَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾(الاعراف: 143) ’’اور جب موسیٰ ہمارے(مقرر کیے ہوئے) وقت پر(کوہ طور پر) آئے، اور موسیٰ کے مالک نے اس سے باتیں کیں، تو موسیٰ[ علیہ السلام ] نے کہا: اے مالک میرے(اپنے تئیں) مجھ کو دکھا، میں تجھ کو(ایک نظر) دیکھوں۔مالک نے کہا: آپ مجھ کو(اس دنیا میں) ہرگز نہ دیکھ سکو گے، لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھو اگر وہ اپنی جگہ تھما رہا توآپ بھی مجھ کو عنقریب دیکھ سکو گے۔ پھر جب موسیٰ کے مالک نے پہاڑ پر تجلی کی تو اس کو چکنا چُور کر دیا(ریزہ ریزہ یا زمین کے برابر) اور موسیٰ علیہ السلام بے ہوش گِر پڑے، جب ہوش آیا تو کہنے لگے تو پاک ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کر تاہوں اور میں(اس زمانے میں) سب سے پہلے ایمان لاتا ہوں۔‘‘ ان کا کہنا یہ ہے کہ عربی زبان میں لفظ: ’’لَنْ‘‘ لا کر جب کسی چیز کی نفی کی جاتی ہے تو یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نفی ہوتی ہے، یہ لفظ تابید(ہمیشگی) اور دوام کے لیے آتا ہے۔ جواب:… یہ استدلال بالکل غلط ہے۔آیت کا مفہوم سمجھنے میں تجاہل عارفانہ سے کام لیا گیا ہے۔لفظ:’’لَنْ‘‘سے کی گئی نفی ہمیشگی پر دلالت نہیں کرتی، بلکہ اس سے مراد یہ دنیا یا ایک لمبا زمانہ ہوسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہود کے بارے میں فرماتے ہیں: ﴿قُلْ اِنْ کَانَتْ لَکُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ عِنْدَ اللّٰہِ خَالِصَۃً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ