کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 94
الْاَصْلُ الثَّانِیْ: مَعْرِفَۃُ دِیْنِ الْاِسْلَامِ، بِالْاَدِلَّۃِ۔ وَہُوَ: الْاِسْتِسْلَامُ لِلّٰہِ بِالتَّوْحِیْدِ وَالْاِنِْقِیَادُ لَہُ بِالطَّاعَۃِ، وَالْبَرَا ئَ ۃُ مِنَ الشِّرْکِ وَاَہْلِہِ۔
دوسرا بنیادی اصول
دلائل کے ذریعہ دین اسلام کی معرفت ہے
اسلام کا معنی ہے توحید کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالہ کر دینا اوراطاعت کے ذریعہ اس کا تابع فرمان ہوجانا، اور شرک اور مشرکین سے براء ت اختیار کرلینا۔
………………… شرح …………………
یعنی تین بنیادی اصولوں سے دوسرا اصول: ’’دلائل کے ذریعہ دین اسلام کی معرفت‘‘ ہے۔ یعنی دین اسلام کی معرفت اور جانکاری کتاب و سنت کے دلائل کی روشنی میں حاصل کی جائے۔
یعنی بندہ شرعی طور پر اللہ تعالیٰ کی توحید کے ذریعہ اور عبادت میں اس کو تنہا جانتے ہوئے اپنے آپ کو اس کے حوالہ کردے۔ اس طرح اسلام لانے پر بندہ قابل تعریف اور لائق اجرو ثواب ہوتا ہے۔ جہاں تک ایسے اسلام اور ایسی خود سپردگی کی بات ہے جو کہ تکوینی فیصلے کے تحت خود بخود عمل میں آتی ہے تو اس میں کوئی ثواب نہیں ہے کیوں کہ اس میں تو انسان کو کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{وَلَہُ أَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَّ کَرْھًا وَّإِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَo} (آل عمران: ۸۳)
’’زمین و آسمان میں جو لوگ ہیں وہ طوعاً و کرہاً اسی کے لیے اسلام لائے اور اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔‘‘
اسلام کے سلسلے میں کہہ سکتے ہو کہ اس میں تین باتیں پائی جاتی ہیں: توحید کے ذریعہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالہ کر دینا، اطاعت کے ذریعہ اس کا تابع فرمان ہوجانا اور شرک و مشرکین سے علیحدگی اختیار کرلینا۔