کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 93
’’نذریں‘‘ پوری کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ اپنے لیے ’’نذر‘‘ پوری کرنا پسند فرماتا ہے۔ اور ہر وہ عمل جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہو عبادت ہے۔ اس کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ہوتی ہے: {وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہُ مُسْتَطِیْرًا} (الانسان: ۷) ’’وہ ایسے دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی عام ہوگی۔‘‘ معلوم ہونا چاہیے کہ ان ’’نذر‘‘ ماننے والوں کی جس ’’نذر‘‘ پر اللہ تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے وہ ایسی تمام عبادتیں ہیں جنہیں اس نے فرض فرمایا ہے۔ کیوں کہ انسان جب عباداتِ واجبہ کی ابتدا کردیتا ہے تو ان کا التزام کرتا ہے۔ دلیل ارشاد الٰہی ہے: {ثُمَّ الْیَقْضُوا تَفَثَھُمْ وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقٌ} (الحج: ۲۹) ’’پھر لوگوں کو چاہیے کہ اپنا میل کچیل دو رکریں، اور اپنی نذریں پوری کریں اور بیت اللہ کا طواف کریں۔‘‘ ’’نذر‘‘ جو کہ انسان کا اپنے اوپر کسی چیز یا کسی اطاعت کا لازم کر لینا ہے، غیر واجب مکروہ ہے۔ بعض علماء نے کہا کہ حرام ہے۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’نذر‘‘ ماننے سے منع فرمایا ہے اور کہا ہے: ’’نذر کوئی بھلائی نہیں لاتی، بلکہ اس کے ذریعہ بخیل سے کچھ نکلوالیا جاتا ہے۔‘‘ اس کے باوجود اگر انسان کسی اطاعتِ الٰہی کی ’’نذر‘‘ مان لے تو اسے پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے، کیوں کہ فرمانِ نبوی ہے: ’’جس نے نذر مانی کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے اس کی اطاعت کرنی ہوگی۔‘‘ خلاصہ یہ کہ ’’نذر‘‘ کا اطلاق عموما فرض عبادتوں پر بھی ہوتا ہے اور ’’خاص نذر‘‘ پر بھی۔ اور ’’نذر خاص‘‘ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے لیے کسی چیز کو اپنے اوپر لازم ٹھہرا لے۔ علماء نے ’’نذر خاص‘‘ کی متعدد قسمیں بیان کی ہیں جن کی تفصیلات فقہی کتابوں میں موجود ہیں۔ ٭٭٭