کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 90
چھوٹے سے گروہ کو ہلاک کر دیا، تو توزمین میں پوجا نہیں جائے گا۔‘‘ آپ برابر اپنے رب سے ہاتھ اٹھائے استغاثہ کرتے رہے یہاں تک کہ دونوں کندھوں سے آپ کی چادر سرک گئی اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی چادر پکڑ کر پیچھے سے اڑھادی اور عرض کیا: ’’اے اللہ کے نبی! اپنے رب سے آپ کی دعا کافی ہوگئی۔ وہ ضرور آپ سے اس وعدہ کو پورا فرمائے گا جو اس نے آپ سے کیا ہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تھی۔‘‘ دوم: ’’مردوں یا نظروں سے اوجھل زندوں سے استغاثہ اور سہارا طلبی‘‘ جو کہ سہارا نہیں دے سکتے۔ یہ شرک ہے، کیوں کہ ان سے استغاثہ وہی کرسکتا ہے جو ان کے لیے کائنات میں مخفی تصرف کرنے کا عقیدہ رکھتا اور انہیں ربوبیت کا حق دیتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’یا وہ ذات جو بے قرار آدمی کی سنتا ہے جب وہ اس کو پکارتا ہے اور مصیبت کو دور کر دیتا ہے اور تم کو زمین میں صاحب تصرف بناتا ہے کہ اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ بہت ہی کم یاد رکھتے ہو۔‘‘ سوم: ’’سہارا دے سکنے والے جانکار زندوں سے سہارا طلب کرنا۔‘‘ یہ استعانت کی طرح جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کے تذکرے میں فرمایا ہے: {فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِہٖ عَلَی الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّہٖ فَوَکَزَہُ مُوْسٰی فَقَضٰی عَلَیْہٖ} (القصص: ۱۵) ’’تو وہ جو ان کی برادری کا تھااس نے موسیٰ سے اس کے مقابلے میں جو ان کی مخالفین میں تھا مدد چاہی تو موسیٰ نے اس کو گھونسا مارا چنانچہ اس کا کام ہی تمام کردیا۔‘‘ چہارم: ’’کسی ایسے زندہ سے سہارا طلب کرنا جو سہارا نہیں دے سکتا ، یہ اعتقاد رکھے بغیر کہ اس کو کوئی مخفی قوت حاصل ہے۔ جیسے ڈوبنے والا کسی اپاہج سے سہارا طلب کرے۔ یہ بے فائدہ اور اپاہج کا مذاق اڑانا ہے، چنانچہ اس وجہ سے ممنوع ہے۔ ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اپاہج آدمی کو پکارتے دیکھ کر کوئی دوسرا اس وہم مبتلا نہ ہوجائے کہ اپاہج کو کوئی مخفی قوت