کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 88
{قُلْ ھُوَ الْقَادِرُ عَلٰی أَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ} (الانعام: ۶۵) ’’آپ کہیے کہ وہ قادر ہے اس بات پر کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے۔‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أعوذ بوجھک)) ’’میں تیرے رخ کی پناہ لیتا ہوں۔‘‘ سوم: ’’مردوں یا نظروں سے اوجھل زندوں سے پناہ طلبی جو پناہ نہ دے سکتے ہوں۔‘‘ یہ شرک ہے۔ اس معنی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَأِنَّہُ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْھُمْ رَھَقًا} (الجن: ۶) ’’اور بہت سے لوگ آدمیوں میں ایسے تھے کہ وہ جنات میں سے بعض لوگوں کی پناہ لیا کرتے تھے چنانچہ ان آدمیوں نے ان جنات کی بد دماغی اور بڑھا دی۔‘‘ چہارم: کسی مخلوق بشر یا جگہ وغیرہ کے ذریعہ پناہ طلبی، جن سے پناہ مل سکتی ہو۔ یہ جائز امر ہے۔ دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد ہے جو آپ نے فتنوں کے سلسلے میں فرمایا تھا: ’’جو ان میں پڑنا چاہے گا وہ اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے، اور جس کو کوئی پناہ مل جائے تو اسے وہاں پناہ لے لینی چاہیے۔‘‘ (متفق علیہ) اس پناہ گاہ اور مقام عافیت کی آپ نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ: ’’جس کے پاس اونٹ ہوں وہ اپنے اونٹوں میں چلا جائے۔ (مسلم) مسلم ہی میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنی مخزوم کی کسی عورت نے چوری کی۔ جب اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو اس نے ام سلمہ کی پناہ طلب کر لی۔‘‘ (الحدیث) ’’مسلم‘‘ ہی کی ایک اور روایت میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک پناہ لینے والا بیت اللہ کی پناہ لے گا تو اس کی طرف ایک لشکر بھیجا جائے گا۔‘‘ اگر کوئی شخص کسی ظالم کے شر سے پناہ طلب کرتا ہے توبقدر امکان اس کو پناہ دیتا اور