کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 86
حدیث سے یہ دلیل دی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم استعانت کرو تو اللہ سے استعانت کرو۔‘‘
٭٭٭
وَدَلِیْلُ الْاِسْتِعَاذَۃِ قَوْلُہُ تَعَالَی: {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} (الفلق: ۱)، و {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ} (الناس: ۱)
استعاذہ کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ’’آپ کہئے کہ میں صبح کے رب سے استعاذہ کرتا ہوں۔‘‘
’’آپ کہئے کہ میں آدمیوں کے رب سے استعاذہ کرتا ہوں‘‘۔
………………… شرح …………………
’’استعاذہ‘‘ کا معنی ہے پناہ طلبی۔ اور پناہ کسی ناپسندیدہ چیز سے بچائو کو کہتے ہیں۔ گویا ’’استعاذہ‘‘ کرنے والا یا پناہ طلب کرنے والا اس ذات سے کہ جس سے وہ استعاذہ کر رہا ہے پناہ اور بچائوطلب کر رہا ہے۔
’’استعاذہ‘‘ اور پناہ طلبی کی چند قسمیں ہیں:
اول: ’’اللہ تعالیٰ سے پناہ طلبی۔‘‘ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف شدت سے اپنے محتاج ہونے اور اس سے پناہ طلب کرنے کا احساس نیز اس کے کافی شافی ہونے کا اعتقاد ہوتا ہے اور یہ یقین بھی ہوتا ہے کہ وہی ہر موجود اور آنے والی چیز سے، ہر چھوٹی بڑی چیز سے، انسان اور غیر انسان سے محفوظ رکھنے پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے۔ ’’اللہ تعالیٰ سے استعاذہ‘‘ اور پناہ طلبی کی دلیل یہ قول ربانی ہے:
{قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِo مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَo} (الفلق: ۲۔۱)
’’آپ کہیے کہ میں صبح کے رب سے استعاذہ کرتا ہوں اس کی برائی سے جو اس نے پیدا کی۔‘‘ (آخر سورہ تک)
اور یہ قول ربانی: