کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 85
لیکن اگر ’’استعانت‘‘ اور مدد طلبی کسی گناہ کے سلسلے میں ہو تو یہ طلب گار اور مددگار دونوں کے لیے حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ} (المائدۃ: ۲)
’’اور گناہ و سرکشی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘
اگر ’’استعانت کسی مباح امر کے سلسلے میں ہو تو یہ طلبگار و مددگار دونوں کے حق میں جائز ہے، اور اس پر مددگار غیر پر احسان کرنے کا ثواب بھی پائے گا۔ بنابریں ایسی ’’استعانت‘‘ اس کے حق میں مشروع ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
{وََأَحْسِنُوْا إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ} (البقرۃ: ۱۹۵)
’’اور احسان کیا کرو بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
سوم: ’’زندہ، حاضر، غیر قادر مخلوق سے استعانت۔‘‘ یہ لغو اور بے فائدہ ہے۔ جیسے کہ کسی کمزور آدمی سے وزن دار چیز کے اٹھانے میں مدد طلب کی جائے۔
چہارم: کسی بھی معاملہ میں مطلقاً ’’مردوں سے استعانت‘‘ یا نظروں سے اوجھل کسی ایسے معاملے میں زندوں سے استعانت کہ جس کو وہ حل کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ یہ شرک ہے۔ کیوں کہ یہ ’’استعانت‘‘ ایسے شخص ہی سے صادر ہوسکتی ہے جو ان زندوں یا مُردوں کے حق میں کائنات کے اندر مخفی تصرف کرنے کا عقیدہ رکھتا ہو۔
پنجم: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اعمال اور حالات سے استعانت‘‘۔ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بموجب مشروع ہے۔ فرمایا:
{وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃَ} (البقرۃ: ۴۵)
’’صبر اور نماز سے استعانت کرو۔‘‘
مؤلف رحمہ اللہ نے پہلی قسم کی ’’استعانت‘‘ کے لیے قرآن سے یہ دلیل دی ہے:
{اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo} (الفاتحۃ: ۵)
’’تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے استعانت کرتے ہیں۔‘‘