کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 84
استعانت کرتے ہیں۔‘‘ حدیث میں ہے: ’’جب تم استعانت کرو تو اللہ سے استعانت کرو۔‘‘ ………………… شرح ………………… ’’استعانت‘‘ مدد طلبی کو کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں: اول: ’’اللہ تعالیٰ سے استعانت‘‘ یہ ایسی ’’استعانت‘‘ ہے جس کے ضمن میں بندہ اپنے رب کے لیے کمال درجہ کی ذلت کا اظہار کرتا ہے، معاملہ اس کے سپرد کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے کافی ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے۔ یہ ’’استعانت‘‘ صرف اللہ تعالیٰ ہی سے ہوسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo} (الفاتحہ: ۵) ’’تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے استعانت کرتے ہیں۔‘‘ وجہ اختصاص یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے معمول (إِیَّاکَ) کو مقدم رکھا ہے۔ اور عربی زبان کہ جس میں قرآن نازل ہوا ہے، کا قاعدہ یہ ہے کہ جو کلمہ مؤخر رکھنے کا ہے اگر اس کو مقدم کر دیا جائے تو اس سے حصر اور اختصاص کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر اس قسم کی ’’استعانت‘‘ غیر اللہ سے کرنا ’’شرک‘‘ اور ملت سے خارج کر دینے کا باعث ہے۔ دوم: ’’مخلوق سے استعانت‘‘، کسی ایسے معاملے میں جس میں کہ مخلوق کو قدرت حاصل ہو۔ ایسی ’’استعانت‘‘ پر یہ دیکھ کر حکم لگایا جائے گا کہ ’’استعانت‘‘ کس سلسلے میں کی گئی ہے؟‘‘ اگر کسی نیکی کے سلسلے میں کی گئی ہے تو یہ ’’استعانت‘‘ اور مدد طلبی طلب گار اور ’’استعانت‘‘ کرنے والے دونوں کے لیے جائز ہے اور جس سے استعانت یا مدد طلب کی گئی ہے اس کے لیے مشروع ہے کہ وہ مدد کرے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی} (المائدۃ: ۲) ’’نیکی اور تقوی پر ایک دوسرے کی مدد کرو۔‘‘