کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 83
کے وقت تم اپنے آپ میں اس بات کا احساس پاتے ہو کہ تمہیں اللہ تعالیٰ پر اعتماد ہے اور تمہیں اسی کی پناہ درکار ہے۔ ’’انابت‘‘ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہوسکتی ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: {وَاَنِیْبُوْا اِلیٰ رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہُ} (الزمر: ۵۴) ’’اپنے رب سے انابت کرو اور اسی کے لیے اسلام لائو۔‘‘ یہاں ’’اسلام‘‘ سے مراد ’’اسلام شرعی‘‘ ہے۔ یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے شرعی احکام کے مطابق ڈھال لو۔ یہ مراد اس لیے لی گئی ہے کیوں کہ ’’اسلام‘‘ لانے کی دو قسمیں ہیں: اول: ’’اسلام تکوینی۔‘‘ یعنی اس کے تکوینی حکم کے مطابق ڈھل جانا۔ یہ ’’اسلام‘‘ زمین و آسمان کے اندر موجود سبھی مومن و کافر اور نیک و بد میں پایا جاتا ہے۔ کسی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اس تکوینی ڈھانچے سے الگ ہوجائے۔ اس کی دلیل یہ ارشاد ربانی ہے: {وَلَہُ أَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْھًا وَّإِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَo} (آل عمران: ۸۳) ’’زمین و آسمان میں جو لوگ ہیں وہ طوعاً و کرھاً اسی کے لیے اسلام لائے اور اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔‘‘ دوم: ’’اسلام شرعی‘‘ یعنی خود کو اللہ تعالیٰ کے شرعی احکام میںڈھال لینا۔ یہ ’’اسلام‘‘ اللہ تعالیٰ کے اطاعت گزار رسولوں اور ان کے خالص متبعین کے ساتھ مخصوص ہے۔ قرآن کریم میں اس کی بہت سی دلیلیں موجود ہیں۔ ایک دلیل تو وہی آیت ہے جو مؤلف رحمہ اللہ نے پیش کی ہے۔ ٭٭٭ وَدَلِیْلُ الْاِسْتِعَانَۃِ قَوْلُہُ تَعَالَی: {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} (الفاتحہ: ۵)، وَفِی الْحَدِیْثِ: ((اِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ))۔ استعانت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: ’’تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے