کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 82
کا پہلو۔ کیوں کہ مریض لاغر اور کمزور طبیعت ہوتا ہے، اور ہوسکتا ہے کہ مرنے ہی والا ہو، تو کم از کم اللہ تعالیٰ کے سلسلے میں حسنِ ظن رکھتے ہوئے اس کو موت آئے گی۔ اور حالتِ صحت میں آدمی چونکہ بلند حوصلہ اور اس خود فریبی کا شکار ہوتا ہے کہ وہ لمبی عمر تک جئے گا تو یہ احساس اسے شوخی اور شیخی پر ابھار سکتا ہے۔ بنا بریں اگر اس صورت میں خوف کا پہلو غالب رہے تو شوخی اور شیخی سے محفوظ رہے گا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امید اور خوف کو بیک وقت دامن گیر ہونا چاہیے تاکہ امیدوار میں اس بات کا احساس پیدا نہ کردے کہ وہ عذاب الٰہی سے مأمون ہے۔ اور خوف اسے رحمت الٰہی سے، مایوس ہوجانے کا احساس نہ دلا دے۔ ظاہر ہے کہ ایسی امید اور ایسا خوف دونوں قبیح اور ہلاکت خیز ہیں۔ ’’خشیت‘‘ اس خوف کو کہتے ہیں جو قابل خوف ذات کی عظمت اور اس کی بادشاہی کی ہمہ گیری کا علم ہوجانے کی وجہ سے پیدا ہو، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: {إِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہٖ الْعُلَمَائُ} (فاطر: ۲۸) ’’بے شک اللہ کی خشیت اس کے بندوں میں سے وہ لوگ رکھتے ہیں جو علماء ہیں۔‘‘ یعنی وہ لوگ جو اس کی عظمت اور اس کی بادشاہی کی ہمہ گیری کا علم رکھنے والے ہیں۔ چنانچہ’’خشیت‘‘ ’’خوف‘‘ سے اَخص ہے۔ یہ فرق مثال کے ذریعہ واضح ہوسکتا ہے۔ مثلاً تم کسی ایسے شخص سے ڈرو جس کے بارے میں تمہیں معلوم نہیں کہ وہ تم پر قدرت رکھتا ہے یا نہیں، تو یہ ’’خوف‘‘ ہے، لیکن اگر ایسے شخص سے ڈرو جس کے بارے میں تمہیں معلوم ہے کہ وہ تم پر قدرت رکھتا ہے، تو یہ ’’خشیت‘‘ ہے۔ ’’احکام خشیت‘‘ کی اقسام کا معاملہ بھی وہی ہے جو ’’احکام خوف‘‘ کی اقسام کاہے۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری اور گناہوں سے بچتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کو ’’انابت‘‘ کہتے ہیں۔ ’’انابت‘‘ قریب قریب ’’توبہ‘‘ کے ہم معنی ہے۔ فرق یہ ہے کہ ’’انابت‘‘ میں ’’توبہ‘‘ سے زیادہ گڑگڑاہٹ اور رقت قلبی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ کیوں کہ ’’انابت‘‘