کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 81
وَدَلِیْلُ قَوْلُہُ تَعَالَی: {وَاَنِیْبُوْا اِلیٰ رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہُ} (الزمر: ۵۴) اور رغبت ،رہبت اور خشوع کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ’’بیشک وہ لوگ نیک کاموں میں دوڑتے تھے اور رغبت و رہبت کے ساتھ ہماری عبادت کرتے تھے اور ہمارے سامنے دب کر رہتے تھے‘‘۔ خشیت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ’’ان کی خشیت مت رکھو اور میری خشیت رکھو‘‘۔ انابت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ’’اپنے رب سے انابت کرو، اور اسی کے لیے اسلام لائو۔‘‘ ………………… شرح ………………… ’’رغبت‘‘: محبوب شے تک پہنچنے کی خواہش۔ ’’رہبت‘‘: ایسا خوف جو خوف زدہ کرنے والی چیز سے بھاگنے پر مجبور کرے۔ گویا یہ ایسا خوف ہے جس میں عمل بھی پایا جاتا ہے۔ ’’خشوع‘‘: اللہ تعالیٰ کی عظمت کے باعث ذلت اور انکساری بایں شکل کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے تکوینی اور شرعی فیصلوں کے حوالہ کر دیا جائے۔ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خالص بندوں کی خوبی بیان کی ہے کہ وہ انکساری کے ساتھ رغبتاً اور رہبتاً اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں۔ یہاں پر دعا سے مراد ’’دعا برائے عبادت‘‘ بھی ہے اور ’’دعا برائے سوال‘‘ بھی۔ چنانچہ وہ لوگ جب اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں تو اس دعا میں ان چیزوں کی رغبت بھی شامل ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ اور اس کے ثواب کی خواہش بھی، ساتھ ہی ساتھ انہیں اس کے عقاب اور اپنے گناہوں کے آثار کا خوف بھی دامن گیر ہوتا ہے۔ مؤمن کے لیے مناسب ہے کہ وہ خوف اور امید کے درمیان رہ کر اللہ تعالیٰ سے رشتہ جوڑے۔ اطاعت کرے تو امید غالب رہے تاکہ اس میں سرگرمی آئے اور اطاعت کی مقبولیت کا امیدوار رہے، گناہ کرنے جارہا ہو تو خوف غالب رہے تاکہ گناہ سے دور ہو اور اس کی سزا سے بچے۔ بعض علماء نے فرمایا: حالتِ مرض میں امید کا پہلو غالب رہے اور حالتِ صحت میں خوف