کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 80
غیر کے اوپر حصول معاش وغیرہ کے سلسلے میں اعتماد کرنا۔ غیر کے ساتھ قلبی تعلق کی شدت اور اس کے اوپر اعتماد کرنے کی وجہ سے یہ توکل از قسم شرک اصغر ہے۔ ہاں اگر وہ غیر کے اوپر اس لیے اعتماد کرتا ہے کہ وہ معاش کا ایک سبب ہے اور اس کو اس معاملہ کی قدت اللہ تعالیٰ ہی نے عطا فرمائی ہے تو اس میں کچھ حرج نہیں۔ کیوں کہ حصول معاش میں غیر کا، کہ جس پر اعتماد اور بھروسہ کیا گیا ہے، واضح دخل ہے۔
چہارم: غیر کے اوپر ایسے معاملات میں توکل کرنا جس میں خود توکل کرنے والا بااختیار ہے، مثلاً غیر کو وہ کسی ایسے معاملہ میں نائب بناتا ہے جس میں نیابت جائز ہے، تو کتاب و سنت اور اجماع کی روشنی میں اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔ یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے فرمایا تھا:
{یَا بَنِِیَّ اذْھَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَأَخِیْہ} (یوسف: ۸۷)
’’اے میرے بیٹو! جائو اور یوسف اور ان کے بھائی کو تلاش کرو۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقات کی وصولی کے لیے عمال و نگراں مقرر فرمائے تھے، حدود کو ثابت کرنے اور انہیں قائم کرنے کے لیے وکیل بنائے تھے۔ اسی طرح حجۃ الوداع کے موقعہ پر اپنے ہاتھ سے ترسٹھ جانوروں کی قربانی کرنے کے بعد آپ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اپنی قربانی کے جانوروں کے سلسلے میں وکیل بنایا تھا کہ وہ قربانی کی کھالیں اور ان کی جھولیں صدقہ کردیں اور سو جانوروں میں سے جو بچ گئے ہیں انہیں قربان کردیں۔
اس امر کے جواز کے سلسلے میں اجماع بہر طور پر مشہور و معروف ہے۔
٭٭٭
وَدَلِیْلُ الرَّغْبَۃِ وَالرَّہْبَۃِ وَالْخُشُوْعِ قَوْلُہُ تَعَالَی: {اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسَٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَیَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَہَبًا وَکَانُوْا لَنَا خَشِعِیْنَ} (الانبیاء: ۹۰)
وَدَلِیْلُ قَوْلُہُ تَعَالَی: {فَلَا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِیْ} (البقرۃ: ۱۵۰)