کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 79
اللہ تعالیٰ پر ’’توکل‘‘ یہ ہے کہ نفع عطا کرنے اور ضرر دور کرنے میں اللہ تعالیٰ کے ہی کافی وشافی ہونے کا اعتماد رکھا جائے۔ ’’توکل‘‘ ایمان کے تتمہ اور اس کی علامات میں سے ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوٓاْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ} (المائدۃ: ۲۳) ’’اللہ پر ہی توکل کرو اگر مؤمن ہو۔‘‘ جب بندہ اللہ تعالیٰ پر اپنے اعتماد میں صادق ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے پیش آمدہ معاملات میں کافی ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَمَن یَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہُ} (الطلاق: ۳) ’’جو اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ اس کو کافی ہوتا ہے۔‘‘ پھر باری تعالیٰ نے اپنے اوپر توکل کرنے والے کو اس فرمان میں اطمینان دلایا ہے: {إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمْرِہٖ} (الطلاق: ۳) ’’بے شک اللہ اپنے کام کو پورا کرکے رہتا ہے۔‘‘ چنانچہ اسے کوئی چیز اپنے ارادے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ جان لو کہ ’’توکل‘‘ کی چند قسمیں ہیں: اول: ’’توکل علی اللّٰہ‘‘، جو کہ ایمان کا تتمہ اور اس کے صدق کی علامت ہے۔ یہ توکل واجب ہے، اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ اس کی دلیل اوپر گزر چکی ہے۔ دوم: ’’سرّی توکل‘‘ یہ ہے کہ نفع فراہم کرنے اور ضرر دور کرنے میں کسی میت کے اوپر اعتماد کیا جائے۔ یہ شرک اکبرہے۔ کیوں کہ ایسا توکل اسی سے صادر ہوسکتا ہے جو کہ اس میّت کے حق میں کائنات کے اندر مخفی تصرف کا اعتقاد رکھتا ہو۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ میّت نبی ہے یا ولی یا کہ اللہ تعالیٰ کا دشمن کوئی طاغوت۔ سوم: کسی غیر پر ایسی چیزوں کے سلسلے میں توکل کرنا جس میں کہ وہ کچھ کرسکتا ہو، بایں طور کہ توکل کے ساتھ اس کے مرتبہ کی بلندی اور اپنے مرتبہ کی پستی کا احساس بھی ہو۔ مثلا کسی