کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 78
کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
………………… شرح …………………
’’امید‘‘ قریب الحصول چیز کی خواہش کو کہتے ہیں۔ قریب الحصول کی جگہ میں رکھ کر بعید الحصول کی خواہش کو بھی امید کہہ دیا جاتا ہے۔
ذلت اور انکساری کے ساتھ امید صرف اللہ تعالیٰ ہی سے رکھی جاسکتی ہے۔ غیر اللہ سے امید رکھنا امید رکھنے والے کی نیت کے لحاظ سے شرکِ اصغر بھی ہوسکتا ہے اور شرک اکبر بھی۔ اس پر مؤلف رحمہ اللہ نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کیا ہے:
{فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ اَحَدًا} (الکہف: ۱۱۰)
’’جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے عمل صالح کرنا چاہیے۔ اور اسے اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قابلِ تعریف امید کا صدور اسی سے ہوسکتا ہے جو اطاعتِ الٰہی کے مطابق عمل کرتا ہو اور اس پر ثواب کا امیدوار ہو۔ یا اس سے جو اپنے گناہوں سے تائب ہوا ہو، اور توبہ کی قبولیت کا امیدوار ہو۔ بغیر عمل کے امید رکھنا فریب اور قابل مذمت تمنا ہے۔
٭٭٭
وَدَلِیلُ قَوْلُہُ تَعَالَی: {وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوٓاْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ} (المائدۃ: ۲۳)، وَقَالَ: {وَمَن یَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہُ} (الطلاق: ۳)
توکل کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ’’اللہ پر ہی توکل کرو اگر مومن ہو‘‘۔ اور فرمایا: ’’جو اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ اس کو کافی ہوتا ہے۔‘‘
………………… شرح …………………
کسی چیز پر ’’توکل‘‘ اس پر اعتماد کرنے کو کہتے ہیں۔