کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 77
اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنا قابل تعریف بھی ہے اور قابل مذمت بھی۔ قابل تعریف وہ خوف ہے جو تمہارے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے درمیان اس طرح حائل ہوجائے کہ تم کو واجبات پر عمل کرنے اور محرمات کو ترک کرنے پر ابھارتا رہے۔ اگر خوف سے یہ مقصد حاصل ہوجائے تو دل پرسکون اور مطمئن نیز اللہ کی نعمت سے شادمان اور اس کے ثواب کی امید سے معمور ہوجاتا ہے۔ قابل مذمت وہ خوف ہے جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامیدی اور مایوسی کا شکار بنادیتا ہے، جس کے نتیجہ میں بندہ حسرت زدہ ہو کر رہ جاتا ہے اور خود کو بے یار و مددگار سمجھنے لگتا ہے۔ کبھی شدت مایوسی سے ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ ارتکاب گناہ میں سرکشی تک پہنچ جاتا ہے۔ خوف کی ایک دوسری قسم ’’خوف عبادت‘‘ بھی ہے۔ کسی سے اتنا خوف کھانا کہ مارے خوف کے اس کی بندگی کرنے لگ جانا۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے جائز ہے، غیر اللہ کے لیے اسے بروئے کار لانا شرکِ اکبر ہے۔ اس کی تیسری قسم ’’سری خوف ‘‘ ہے۔ سری خوف اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی صاحبِ قبر یا ولی سے کھایا جائے حالانکہ وہ دور ہو اور خوف کھانے والے پر اثر انداز بھی نہ ہوتا ہو، لیکن ڈرنے والا اس سے سرّی طور پر یعنی پوشیدہ انداز میں ڈرتا ہو، اس خوف کو بھی علماء نے شرک میں شمار کیا ہے۔ ٭٭٭ وَدَلِیْلُ الرَّجَائِ قَوْلُہُ تَعَالَی: {فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہِ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہِ اَحَدًا} (الکہف: ۱۱۰) امید کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ’’جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتاہے اسے عمل صالح کرنا چاہیے۔ اور اسے اپنے رب