کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 76
جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘
٭٭٭
وَدَلِیْلُ الخَوْفِ قَوْلُہُ تَعَالَی: {فَلَا تَخَافُوْہُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ} (آل عمران: ۱۷۵)
خوف کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ’’اگر تم لوگ مؤمن ہو تو ان کا خوف نہ رکھو۔ اور میرا خوف رکھو۔‘‘
………………… شرح …………………
’’خوف‘‘ ڈر کو کہتے ہیں۔ اور ڈر وہ اثر ہے جو کسی متوقع ہلاکت، نقصان اور تکلیف کے خدشہ کی وجہ سے طاری ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے اولیاء شیطان سے خوف کھانے سے منع کیا ہے اور صرف اپنی ذات سے ہی خوف کھانے کا حکم دیا ہے۔
خوف اور ڈر کی تین قسمیں ہیں:
قسم اول: ’’فطری خوف‘‘، جیسے انسان کا درندوں، آگ اور غرق ہونے سے خوف کھانا۔ ایسے خوف کی وجہ سے بندہ قابل ملامت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے:
{فَأَصْبَحَ فِی الْمَدِیْنَۃِ خَائِفًا یَّتَرَقَّبُ}
’’پھر ان کو شہر میں صبح ہوئی خوف اور وحشت کی حالت میں۔‘‘
لیکن اگر یہ خوف شیخ رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق ایسا ہو کہ جو کسی ترکِ واجب یا ارتکاب حرام کا سبب بن جائے تو حرام ہے۔ کیوں کہ جو کام کسی ترکِ واجب یا ارتکابِ حرام کا سبب بنے وہ حرام ہی ہوگا۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
{فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo} (آل عمران: ۱۷۵)
’’اگر تم لوگ مؤمن ہو تو ان کا خوف مت رکھو۔ اور میرا خوف رکھو۔‘‘