کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 75
کے لیے پکارتا ہے جس کی کہ وہ قدرت رکھتا ہے، مثلا یوں کہتا ہے کہ ’’اے فلاں مجھے کھلائو،‘‘ ’’اے فلاں مجھے پلائو،‘‘ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر جو شخص کسی مردہ یا غائب کو مذکورہ چیزوں کے لیے پکارے تو وہ مشرک ہے، کیوں کہ مرُدہ یا غائب کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ان چیزوں کو اس کے لیے فراہم کرسکے۔ چنانچہ اس کا ایسے لوگوں کو پکارنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جس کو پکارتا ہے اس کے لیے کائنات میں تصرف کرسکنے کا عقیدہ رکھتا ہے، اور اس وجہ سے مشرک بن جاتا ہے۔
دعا کی دو قسمیں ہیں: دعا برائے سوال، اور دعا برائے عبادت۔
’’دعا برائے سوال‘‘ دعائے طلب کو کہتے ہیں۔ یعنی حاجات کا طلب کرنا۔ اگر یہ بندے کی طرف سے اپنے رب سے ہو تو یہ دعا عبادت ہے۔ کیوں کہ یہ دعا اس احساس کے ساتھ ہوتی ہے کہ محتاجی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے اور سہارا بھی صرف اسی کا ہے، اس میں یہ اعتقاد بھی ساتھ ہوتا ہے کہ وہی قادر، کریم بے پناہ فضل، اور بے پایاں رحمت والا ہے۔ اگر یہ طلب اور دعا کسی بندے کی طرف سے اپنی ہی جیسی کسی مخلوق سے ہوتو بھی جائز ہے بشرطیکہ جس سے دعا کی جارہی ہو وہ دعا ء اور طلب کو سمجھتا ہو اور اس کو پورا کرسکتا ہو، مثلاً کسی کا یہ کہنا: ’’اے فلان مجھے کھلائو۔‘‘
’’دعا برائے عبادت‘‘ یہ ہے کہ دعا کے ذریعہ پکارے جانے والے کی طرف سے ثواب کی طلب میں اور اس کی سزا سے خوف کھاتے ہوئے اس کے لیے بندگی اور ذلت کا اظہار کیا جائے۔ یہ دعا غیر اللہ کے لیے درست نہیں ہے بلکہ غیر اللہ کے لیے ایسا کرنا شرکِ اکبر اور ملت سے خارج کر دینے والا فعل ہے۔
اس بارے میں اللہ تعالیٰ کی یہ وعید ہے:
{اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَo} (غافر: ۶۰)
’’بے شک جو لوگ میری عبادت سے سرتابی کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل ہو کر