کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 69
اتباع اور ممنوعات سے اجتناب کرکے اس کے عذاب سے بچائو کا انتظام کرنا۔
یعنی زمین کو بچھونا بنایا ہے اور اسے ہموار کر دیا ہے کہ بغیر مشقت و دشواری کے ہم اس سے استفادہ کرتے ہیں جیسے کہ انسان اپنے بچھونے پر سوتا ہے۔
یعنی ہمارے اوپر، کیوں کہ چھت اوپر ہی ہوتی ہے۔ گویا آسمان زمین والوں کی چھت ہے۔ اور یہ ایک محفوظ چھت ہے۔ جیسا کہ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا ہے:
{وَجَعَلْنَا السَّمَآئَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا وَّھُمْ عَنْ آیَاتِھَا مُعْرِضُوْنَo} (الانبیاء: ۳۲)
’’اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا اور یہ لوگ اس کی نشانیوں سے اعراض کئے ہوئے ہیں۔‘‘
یعنی بلندی سے ، بہ لفظ دیگر بادلوں سے تمہارے لیے طاہر پانی اتارا۔ جس سے کہ سیرابی یعنی ہریالی پیدا ہوتی ہے۔ جس میں تم لوگ جانور چراتے ہو۔ جیسا کہ سورۃ النحل میں بیان کیا ہے۔
یعنی تمہارے لیے عطا اور بخشش کے طور پر۔ دوسری آیت میں ارشاد ہے:
{مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِأَنْعَامِکُمْ} (النازعات: ۳۳)
’’تم لوگوں اور تمہارے جانوروں کے لیے فائدے کے طورپر۔‘‘
یعنی اسی ذات کے لیے جس نے تم لوگوں کو اور تم لوگوں سے پہلے والوں کو پیدا کیا، تم لوگوں کے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا، اور تم لوگوں کے لیے آسمان سے پانی اتارا پھر اس کے ذریعہ تمہارے لیے بطور رزق پھل ظاہر کئے۔ اس ذات کے لیے ایسے ہمسر نہ بنالو جن کی تم ایسی عبادت کرو کہ جیسی اللہ کی کرتے ہو ، یا تم ان سے ایسی محبت رکھو کہ جیسی اللہ سے رکھتے ہو، کیوں کہ یہ تمہارے لیے نہ عقلا درست ہے نہ شرعا۔
یعنی تم جانتے ہو کہ اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ پیدا کرنا، رزق فراہم کرنا اور تدبیر کرنا اسی کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا عبادت میں اس کا کوئی شریک نہ بنائو۔