کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 68
وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ م بِاَمْرِہٖ اَ لَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَo} (الاعراف: ۵۴)
’’بے شک تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا پھر عرش پر قائم ہوا۔ چھپا دیتا ہے رات سے دن کو ایسے کہ وہ رات اس دن کو جلد ہی آلیتی ہے۔ اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ یاد رکھو اللہ ہی کے لیے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا۔ بڑی خوبیوں سے بھرا ہے اللہ رب العالمین۔‘‘
چنانچہ ’’رب‘‘ ہی معبود ہے۔ یعنی وہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کو پوجا جائے یا وہی پوجا کا مستحق ہونے کی وجہ سے پوجا جاتا ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جو بھی پوجا جائے وہ رب ہے، کیوں کہ وہ معبودانِ باطل جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ پوجے جاتے ہیں اور ان کے پجاری انہیں اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر رب بنائے ہوئے ہیں حقیقت میں رب نہیں ہیں۔
’’رب‘‘ اس کو کہتے ہیں جو خالق ہو، مالک ہو اور تمام معاملات کی تدبیر کرتا ہو۔
یعنی اس بات کی دلیل کہ رب ہی مستحق عبادت ہے۔
یہ خطاب تمام بنی نوع انسان کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ صرف اسی تنہا لاشریک کی عبادت کریں، اس کا کوئی ہم سر نہ جانیں۔ آیت میں وضاحت ہے کہ : ’’چونکہ وہ تنہا بلاشرکت غیر خالق ہے اس لیے عبادت کا استحقاق اسی کو ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا فرمان: (’’جس نے تم لوگوں کو پیدا کیا‘‘) آیت کا ایسا ٹکڑا ہے جو سابق حکم کی کھل کر وجہ بتارہا ہے۔ یعنی تم لوگ اسی کی عبادت اس وجہ سے کرو کہ اس نے تم لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ گویا اس کے رب ہونے اور خالق ہونے کی وجہ سے تم پر اس کی عبادت لازم ہوجاتی ہے۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ ہر اس شخص پر جو اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کرتا ہو لازم ہے کہ وہ تنہا اسی کی عبادت کرے۔ ورنہ عقیدہ اور عمل میں موافقت نہیں رہ جائیگی۔
یعنی تاکہ تم ’’تقویٰ‘‘ کا حصول کرسکو۔ ’’تقوی‘‘ کا معنی ہے کہ اللہ عزوجل کے احکام کی