کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 66
{وَمِنْ ئَ ایٰتِہِ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ} الخ
’’اس کی نشانیوں میں سے رات ہے اور دن ہے۔‘‘ الخ
اس کا مفہوم یہ ہے کہ رات و دن ان واضح علامتوں میں سے ہیں جو اپنے مدلول کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ رات دن بذات خود علامت ہیں اور ان کے درمیان پائے جانے والے اختلافات بھی، ان کے اندر موجود انسانی مصلحتیں اور انسان کے حالات کا الٹ پھیر بھی۔ سورج اور چاند کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ان دونوں کے اندر بھی اللہ تعالیٰ کی علامت موجود ہے، ان کی گردش میں بھی اور ان کے انتظام میں بھی۔ ان انسانی مصلحتوں میں بھی علامت موجود ہے جو چاند سورج، ان کی گردش اور انتظام کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہیں اور جن سے بہت سی مضرتوں کا ازالہ ہوتا ہے۔
پھر بھی اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کو سورج یا چاند کو سجدہ کرنے سے منع فرمایا ہے گوکہ بندوں کے دل میں ان کا ایک عظیم مقام ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مخلوق ہونے کی وجہ سے عبادت کے مستحق ہی نہیں عبادت کا مستحق تو صرف وہ اللہ ہے جس نے انہیں وجود بخشا ہے۔
’’اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کا خالق ہے۔‘‘ اس کی دلیل یہ فرمان الٰہی ہے:
{اِنَّ رَبَّکَمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ} (الاعراف: ۵۴)
’’بے شک تم لوگوں کا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی کئی نشانیاں مذکور ہیں:
اول: اللہ کا ان عظیم مخلوقات کو چھ دن میں پیدا کرنا۔ اگر چاہتا تو وہ انہیں ایک ہی لحظہ میں پیدا کرسکتا تھا، لیکن بہ تقاضائے مصلحت الٰہی اس نے اسباب و مسببات میں ربط پیدا فرمایا۔
دوم: اس کا عرش پر قائم ہونا۔ یعنی عرش کے اوپر اس کو ایسی بلندیٔ خاص حاصل ہے جو اس کے جلال و عظمت کے عین مناسب اور اس کے کمال ملکیت اور بادشاہی کی دلیل ہے۔
سوم: اس کا دن کو رات سے بایں طور ڈھانکنا کہ رات دن کا نقاب اور پردہ بن جائے، جس طرح کہ دن کی روشنی پر کپڑا ڈال کر روشنی کو ڈھانک دیا جاتا ہے۔