کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 64
اللہ تعالیٰ اس عالم کی تباہی کا اذن فرمادے گا۔ لہٰذا وہ اپنی متعینہ معیاد تک محوِ سفر رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَہَا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِo} (یس: ۳۸) ’’اور سورج اپنے ٹھکانے (مقررہ میعاد) کی طرف چلتا رہتا ہے۔ یہ اندازہ باندھا ہوا ہے (اس اللہ کا) جو زبردست، علم والا ہے۔‘‘ وہ اپنی جسامت اور تاثیر کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے۔ اس کی جسامت بہت زیادہ ہے۔ اور اس کے اثرات وہ فائدے ہیں جو جسموں، درختوں، دریائوں اور سمندروں وغیرہ کو پہنچ رہے ہیں۔ جب ہم اس عظیم نشانی یعنی سورج کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو اس بے انتہا دوری کے باوجود جو ہمارے اور اس کے درمیان حائل ہے، اس کی زبردست حرارت محسوس کرتے ہیں۔ پھر اگر اس کے اندر پیدا کی گئی اس زبردست روشنی پر نظر ڈالیں تو اس کے ذریعہ لوگوں کے لیے طرح طرح کی دولت کی بہتات پاتے ہیں کہ دن میں لوگ کسی بھی دوسری روشنی سے بے نیاز ہیں، اور اس سے لوگوں کے لیے کثرتِ مال جیسی بڑی بھلائیوں کا حصول ہوتا ہے۔ پس یہ چیز بھی ان بے شمار نشانیوں میں سے ہے جن میں سے ہم صرف کچھ کا ادراک کرسکتے ہیں۔ ایسے ہی چاند اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے، بایں شکل کہ اس کے لیے ہر رات ایک منزل کے حساب سے کئی منزلیں مقرر فرمائی گئی ہیں: {وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیمِo} (یس: ۳۹) ’’ہم نے چاند کے لیے منزلیں مقرر کیں یہاں تک کہ ایسا رہ جاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی۔‘‘ چنانچہ وہ ظاہر ہوتا ہے تو چھوٹا ہوتا ہے، پھر آہستہ آہستہ بڑا ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ مکمل ہوجاتا ہے، اور پھر کم ہونے لگتا ہے، ہو بہو انسان کی طرح کہ وہ بھی کمزور پیدا کیا