کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 63
السَّبْعُ وَمَنْ فِیْہِنَّ وَمَا بَیْنَہُمَا۔
جب تم سے کہا جائے تم نے اپنے رب کو کیسے پہچانا؟ تو کہو: کہ اس کی نشانیوں اور اس کی مخلوقات کے ذریعہ اس کی نشانیوں میں سے رات، دن، سورج اور چاند ہیں۔ اور اس کی مخلوقات میں سے ساتوں آسمان، ساتوں زمین ان کے اندر موجود لوگ اور ان دونوں کے درمیان موجود اشیاء ہیں۔
………………… شرح …………………
یعنی جب تم سے کہا جائے کہ ’’تم نے کس چیز کے ذریعہ اللہ عزوجل کو پہچانا؟‘‘
تو کہو: ’’میں نے اس کو اس کی نشانیوں اور اس کی مخلوقات کے ذریعہ پہچانا۔‘‘
’’نشانیاں‘‘ آیات کا ترجمہ ہے جو کہ ’’آیت‘‘ کی جمع ہے۔ کسی چیز کی نشانی اس کو کہتے ہیں اور ’’شرعی نشانیاں‘‘ وہ وحی ہیں جو اللہ عزوجل نے اپنے رسولوں پر نازل کی ہیں۔ اس بنیاد پر مؤلف رحمہ اللہ کا قول: ’’اس کی نشانیوں اور مخلوقات کے ذریعہ ‘‘ عطف خاص علی العام کی قبیل سے ہوگا، بشرطیکہ ہم نشانیوں سے تکوینی اور شرعی دونوں نشانیاں مراد لیں، لیکن یہی قول عطف تباین مغایر کی قبیل سے ہوگا۔ اگر نشانیوں سے صرف ’’شرعی نشانیاں‘‘ مراد لی جائیں۔ بہر صورت اللہ عزوجل اپنی ’’تکوینی نشانیوں‘‘ سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ ’’تکوینی نشانیاں‘‘ اس کی عظیم مخلوق، اور مخلوق میں پائی جانے والی عجیب و غریب کاری گری اور زبردست حکمت سے عبارت ہیں۔ جس طرح کہ وہ اپنی شرعی نشانیوں، ان میں موجود عدل و انصاف اور ان کے مشتمل بر مصالح و دفع مفاسد ہونے کے واسطے سے پہچانا جاتا ہے۔
ہر اک شے میں اس کی ہے جلوہ گری
کرے رہنمائی کہ وہ ایک ہے
اللہ تعالیٰ کی یہ تمام نشانیاں اس کے کمال قدرت، کمال حکمت اور کمال رحمت کی دلیل ہیں۔ چنانچہ سورج اللہ عزوجل کی ایک نشانی ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے جب سے اسے پیدا کیا ہے وہ ایک منظم اور انوکھے سفرمیں رواں دواں ہے اور رواں دواں رہے گا یہاں تک کہ