کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 62
{وَمَا اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکٰوۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ} (البینۃ: ۵)
’’اور ان لوگوں کو یہی حکم ہوا تھا کہ اللہ کی اس طرح عبادت کریں کہ عبادت اسی کے لیے خاص رکھیں (باطل دینوں سے) الگ ہو کر اور نماز کی پابندی رکھیں اور زکوۃ دیا کریں۔ اور یہی درست طریقہ ہے۔‘‘
تمام مخلوق کا اللہ تعالیٰ ہی مربی ہے، اس بات پر مؤلف علیہ الرحمۃ نے اللہ کے اس قول سے استدلال کیا ہے:
{اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo} (الفاتحۃ: ۱)
’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جو ہر عالم کا رب ہے۔‘‘
یعنی کمال، جلال اور عظمت کی خوبی اللہ وحدہ ہی کے لیے ہے۔
(ہر عالم کا رب ہے ) یعنی نعمتوں کے ذریعہ ان کا پروردگار، ان کا خالق، ان کا مالک، اور اپنی مرضی کے مطابق ان کا انتظام کار ہے۔
’’عالم‘‘ ہر وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہے۔ انہیں ’’عالم‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق، مالک اور اپنے انتظام کار کا ’’علم‘‘ یعنی نشانی ہیں۔ چنانچہ ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کے لیے ایک نشانی اور علامت ہے جو اس کے ایک ہونے کا اشارہ کرتی ہے۔
میں جو اس بات کا جواب دے رہا ہوں، اسی عالم کا ایک فرد ہوں۔ اور چوں کہ اللہ تعالیٰ میرا رب اور مربی ہے اس لیے میرے لیے واجب ہے کہ میں صرف اسی ایک کی عبادت کروں۔
٭٭٭
فَاِذَا قِیْلَ لَکَ بِمَ عَرَفْتَ رَبَّکَ؟ فَقُلْ: بِآیَاتِہِ وَمَخْلُوْقَاتِہِ وَمِنْ آیَاتِہِ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ، وَمِنْ مَخْلُوْقَاتِہِ السَّمَواتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُوْنَ