کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 61
جس کے لیے وہ پیدا کئے گئے ہیں اور اپنے رزق سے ان کی مدد فرمائی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی گفتگو کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوْسٰیo قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰیo} (طہ: ۴۹۔۵۰) ’’اے موسیٰ! تم دونوں کا رب کون ہے؟ کہا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کے مناسب بناوٹ عطا فرمائی پھر رہنمائی کی۔‘‘ چنانچہ اللہ تعالیٰ ہی نے تمام عالم کے ہر فرد کی اپنی نعمتوں سے پرورش فرمائی ہے۔ اپنے بندوں پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اتنی بے شمار ہیں کہ ان کی گنتی ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا} (ابراہیم: ۳۴) ’’اگر اللہ کی نعمتیں شمار کرنے لگو تو شمار میں نہیں لاسکتے۔‘‘ اللہ وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ہے، تمہیں استعداد دی ہے، تمہاری مدد کی ہے اور تم کو رزق سے نوازا ہے۔ لہٰذا تنہا وہی عبادت کا مستحق ہے۔ یعنی وہ وہی ذات ہے جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور اسی کے لیے خشوع کے ساتھ محبت اور تعظیم میں ذلت اختیار کرتا ہوں، وہی کرتا ہوں جس کا اس نے مجھے حکم دیا ہے اور ترک کر دیتا ہوں اس چیز کو جس سے اس نے روک دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ میرے لیے کوئی ایسا نہیں جس کی کہ میں عبادت کروں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِo} (الانبیاء: ۲۱) ’’ ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا پیغمبر نہیں بھیجا جس کے پاس ہم نے یہ وحی نہ بھیجی ہو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری عبادت کرو۔‘‘ اور فرمایا: