کتاب: شرح اُصول ثلاثہ - صفحہ 60
سیرت نبوی کا حسب امکان مطالعہ کرنا چاہیے کہ امن وجنگ اور وسعت و تنگی جیسے حالات میں آپ کا معمول کیا تھا؟ اللہ تعالیٰ سے ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے رسول کے ظاہری اور باطنی متبعین میں سے بنائے اور اسی پر وفات دے۔ بے شک یہ اسی کا کام ہے اور وہی اس پر قادر ہے۔
٭٭٭
فَاِذَاقِیْلَ لَکَ: مَنْ رَبُّکَ؟ فَقُلْ: رَبِّیَ اللّٰہُ الَّذِیْ رَبَّانِیْ وَرَبَّی جَمِیْعَ الْعَالَمِیْنَ بِنِعَمِہِ، وَہُوَ مَعْبُودِیْ لَیْسَ لِیْ مَعْبُوْدٌ سِوَاہُ وَالدَّلِیْلُ قَوْلُہُ تَعَالَی: {الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} (الفاتحہ: ۲) وَکُلَّ مَا سِوَی اللّٰہِ عَالَمٌ وَاَنَا وَاحِدٌ مِنْ ذَلِکَ الْعَالَم۔
پس جب تم سے کہا جائے کہ تمہارا رب کون ہے؟ تو کہو کہ میرا رب وہ اللہ ہے جس نے اپنی نعمتوں سے میری اور تمام عالم کی پرورش فرمائی ہے۔ وہ میرا معبود ہے، اس کے علاوہ میرا اور کوئی معبود نہیں، دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ’’تمام تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جو ہر عالم کا پرورگار ہے۔‘‘
ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہے عالم ہے اور میں اسی عالم کی ایک چیز ہوں۔
………………… شرح …………………
یعنی تمہارا وہ رب جس نے تمہیں پیدا کیا، تمہاری مدد کی، تمہیں استعداد دی اور تمہیں رزق دیا، کون ہے؟
پرورش اس اہتمام کو کہتے جس کے مطابق پرورش کرنے والا سدھار پیدا کرتا ہے۔ مؤلف رحمہ اللہ کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’رب‘‘ تربیت سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ انہوں نے فرمایا ہے: ’’جس نے اپنی نعمتوں سے میری پرورش اور تربیت فرمائی ہے۔‘‘ یقینا تمام عالم کی اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہی اپنی نعمتوں سے پرورش فرمائی ہے، ان میں وہ استعداد عطا کی ہے